Maktaba Wahhabi

117 - 315
یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کو مخلوق کے کسی چیز پر بیٹھنے کی طرح قراردیا جاسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ جیسی کوئی چیز ہی نہیں۔وہ شخص بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ ﴿ اِسْتَوْلٰی عَلَی الْعَرشِ﴾ کے معنی ﴿ اِسْتَوْلٰی عَلَی الْعَرشِ﴾ یعنی عرش پر غالب ہونے اور قبضہ پانے کے ہیں کیونکہ یہ موقف تو اللہ کے فرمان کے معنی ہی بدل دیتا ہے اور یہ اس موقف کے بھی خلاف ہے جس پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کا اجماع تھا، لہٰذا کسی مومن کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ عزوجل کی نسبت ایسی بات زبان پر لائے۔ توحید کی اس قسم، یعنی توحید اسماء و صفات کے بارے میں خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہم پر واجب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے صرف انھی اسماء و صفات کا اقرار کریں جن کا اس نے خود اپنی ذات پاک کے لیے اثبات فرمایا ہے یا جن کا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے اثبات فرمایا ہے اور پھر ان تمام اسماء و صفات کو تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے بغیر علی وجہ الحقیقت اس کی پاک ذات کے لیے مانیں۔ صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ائمہ اسلاف کے اقوال: امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جو صفات بیان کی ہیں، ان کی قراء ت ہی ان کی تفسیر ہے۔ان کی کیفیت اور مثال بیان نہ کی جائے گی۔‘‘[1] امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’میں اللہ پر اور ان آیات پر ایمان لایا جو اللہ کی طرف سے اللہ کی مراد کے مطابق آئیں۔اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان احادیث پر ایمان لایا جو رسول اللہ کی طرف سے رسول اللہ کی مراد کے مطابق آئیں۔‘‘[2] ولید بن مسلم رحمہ اللہ نے کہا: میں نے اوزاعی، سفیان بن عیینہ اور مالک بن انس رحمہم اللہ سے ان احادیث کے متعلق سوال کیا جو صفاتِ باری تعالیٰ اور رؤیتِ باری تعالیٰ کے بارے میں بیان ہوئی ہیں تو انھوں نے جواباً فرمایا: ’’انھیں کیفیت بیان کیے بغیر اسی طرح آگے بیان کرو جیسے وہ بیان ہوئی ہیں۔‘‘[3]
Flag Counter