Maktaba Wahhabi

116 - 315
اور جو شخص ہاتھوں کی کیفیت بیان کرے اورکہے کہ ان کی ایک معین کیفیت ہے، خواہ وہ کیسی ہی کیفیت بیان کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایک ایسی بات کہتا ہے جس کا اسے قطعاً کوئی علم نہیں، مزید برآں وہ ایک ایسی چیز کے پیچھے پڑتا ہے جسے وہ جانتا ہی نہیں۔ صفات کے بارے میں ہم ایک اور مثال بیان کرتے ہیں اور وہ ہے اللہ کا اپنے عرش پر مستوی ہونا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں سات مقامات پر بیان فرمایا ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے اور ان تمام مقامات پر ﴿ اِسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ﴾ کے الفاظ ہی استعمال کیے گئے ہیں اور جب ہم استویٰ کے معنی معلوم کرنے کے لیے عربی زبان کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب استویٰ کا لفظ علیٰ کے ساتھ استعمال ہو تو اس کے معنی صرف ارتفاع اور بلندی کے ہوتے ہیں، لہٰذا ارشاد باری تعالی: ﴿ الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى ﴾[1] اور اس طرح کی دیگر آیات کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنے عرش پر ایک خاص انداز سے تشریف فرما ہے جو اس کے شایان شان ہے۔یہ بلندی باقی ہر قسم کی بلندی سے مختلف ہے اور یہ علو (بلندی) صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہے اور وہ اپنے عرش پر اس طرح مستوی (بلند و بالا) ہے جس طرح اس کی پاک ذات کے شایان شان ہے، یہ استواء انسان کے چارپائی پر یا کرسی پر یا جانوروں پر یا کشتی پر استواء بیٹھنے کی طرح نہیں ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر فرمایا ہے: ﴿ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ (12) لِتَسْتَوُوا عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (13) وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ﴾ ’’اور تمھارے لیے کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو تاکہ تم ان کی پیٹھ پر ٹھیک سے بیٹھ جاؤ اور جب اس پر ٹھیک طرح سے بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کے احسان کو یاد کرو اورکہو: وہ (ذات) پاک ہے جس نے اسے ہمارے قابو اور تصرف میں کردیا ہے جبکہ ہم میں طاقت نہ تھی کہ اسے اپنے بس میں کر لیتے اور ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘[2]
Flag Counter