Maktaba Wahhabi

319 - 315
مسلمان ان کا مرتکب ہوتا ہے تو کیا اسے شرک نہیں کہا جائے گا اور اگر ایسا نہیں تو پھر وہ امور نعوذباللہ شرک ہی نہیں، مثلاً: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ کَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ)) ’’جس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی چیز کی قسم اٹھائی اس نے کفر یا شرک کیا۔‘‘ [1] نیز ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ((مَنْ عَلَّقَ تَمِیمَۃً فَقَدْ أَشْرَكَ)) ’’جس شخص نے (گھونگھے، منکے وغیرہ کا) تعویذ لٹکایا اس نے یقینا شرک کیا۔‘‘ [2] 6 جن امور کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک قرار دیا اور مشرکین کے جن افعال کی وجہ سے انھیں جہنمی قرار دیا گیا اگر انھی امور کا ارتکاب مسلمان کرے بلکہ ان سے بڑھ کر ان کو انجام دے اور اس کے ایمان میں کوئی فرق نہ آئے اور جس شرک سے روکنے کے لیے آپ کو بھیجا گیا اسے شرک ہی قرار نہ دیا جائے اور ساری زندگی آپ جس بیماری سے ڈراتے رہے اس کے وجود ہی کا انکار کر دیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی بھی مشرک نہیں ہے۔ اس حدیث کے علاوہ بھی شرک کے عدم و جود کے جتنے شبہات ہیں، وہ سب باطل تأویل اور تحریف کا شاخسانہ ہیں۔عصر حاضر کی قبر پرستی اور اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال میں شرک کی بیماری عام ہے اور اسی سے بچنے کے لیے قرآن نے ہماری رہنمائی کی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محنت کرتے رہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں چھوٹے بڑے ہر قسم کے شرک سے محفوظ رکھے۔آمین! دیگر ارشاداتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں زیر بحث نکتے کی وضاحت: علاوہ ازیں بطور سد باب نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بہت سی ایسی تنبیہات فرمائی ہیں جن کا مقصد امت کو شرک سے بچانا اور عقیدۂ توحید کی حفاظت کرنا ہے۔اگر امت مسلمہ کا شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ان تنبیہات اور انسدادی احکام کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تنبیہی احکام سے بھی اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ انسانی کمزوریوں اور سابقہ امتوں کے طرز عمل کے پیش نظر یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اندیشہ لاحق رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی شرک کی دلدل میں پھنس سکتی ہے، چنانچہ اس سے بچنے کے لیے آپ نے درج ذیل باتوں کی خاص طور پر تاکید فرمائی:
Flag Counter