Maktaba Wahhabi

30 - 315
بے محل نہ ہوگا اگر اس موقع پر زمانہ حال کے مذکورہ بالا ہندو مصنف کی رائے پر بھی نظر ڈال لی جائے۔گوتم بدھ کے ظہور سے پہلے ہندو مذہب کے تصور الوہیت نے جو عام شکل و صورت پیدا کر دی تھی، اس پر بحث کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے: ’’گوتم بدھ کے عہد میں جو مذہب ملک پر چھایا ہوا تھا، اس کے نمایاں خدوخال یہ تھے کہ لین دین کا ایک سودا تھا جو اللہ تعالیٰ اور انسانوں کے درمیان طے پاگیا تھا۔جبکہ ایک طرف اپنشد کا برہمان تھا جو ذات الوہیت کا ایک اعلیٰ اور تہذیب یافتہ تصور پیش کرتا تھا تو دوسری طرف بے شمار خداؤں کا ہجوم تھا جن کی کوئی حد ہی نہیں تھی۔آسمان کے سیارے، مادے کے عناصر، زمین کے درخت، جنگل کے حیوان، پہاڑوں کی چٹانیں، بہتے پانی کے دریا اور نہریں، غرضیکہ مخلوقات کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو خدائی حکومت میں شریک نہ بنائی گئی ہو۔گویا ایک بے لگام اور خودبخود پیدا ہو جانے والے کو اجازت مل گئی ہو کہ (اس کے خیال میں) دنیا کی جتنی چیزوں کو خدائی مسند پر بٹھایا جاسکتا ہے، بے روک ٹوک بٹھاتا رہے، جیسے خداؤں کی بے شمار بھیڑیں بھی اس کے خدا بنانے کے شوق کے لیے کافی نہ ہوں، اس لیے طرح طرح کے بھوتوں اور عجیب و غریب جسموں کی بناوٹی صورتوں کا بھی ان پر اضافہ ہوتا رہا۔اس میں شبہ نہیں کہ اپنشدوں نے فکر و نظر کی دنیا میں ان خداؤں کی بادشاہت ڈھا دی تھی لیکن عمل کی زندگی میں انھیں نہیں چھیڑا گیا، وہ بدستور اپنی مسندوں پر جمے رہے۔‘‘[1] شمنی تصور: اس کے ظہور کے وقت بت پرستی کے مفادات بہت گہرے ہوچکے تھے اور بت پرستی خود اپنی جگہ راہ حقیقت کی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی تھی۔اس (تصور) نے اس رکاوٹ سے راستہ صاف کر دینا چاہا اور تمام توجہ زندگی کی عملی بھلائیوں کی طرف پھیر دی۔اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ برہمنی خدا پرستی کے عقائد سے انکار کیا جائے اور اس پر زور دیا جائے کہ نجات کا راستہ ان بناؤٹی خداؤں کی پوجا سے نہیں مل سکتا بلکہ یہ راستہ اصل حقیقت کے علم اور نیک عمل ہی سے مل سکتا ہے، یعنی ’’اشٹانگ [2] مارگ‘‘
Flag Counter