Maktaba Wahhabi

157 - 315
بجالاتا ہے، یعنی شرک فی الصفات کا لازمی نتیجہ ہے شرک فی العبادات۔گویا شرک فی الذات ہی شرک فی الصفات کا سب سے بڑا دروازہ ہے اور دوسری انواعِ شرک کا بھی۔جیسے ہی یہ دروازہ کھلتا ہے ہر نوع کے شرک کا آغاز ہونے لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شرک فی الذات پر اللہ تعالیٰ کا غیظ و غضب اس قدر بھڑکتا ہے کہ ممکن ہے آسمان پھٹ جائے، زمین دولخت ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کا عقیدۂ توحید کے ساتھ یہ کھلم کھلا اور واضح تصادم ہے جس میں بے شمار مخلوق خدا پیری مریدی کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔دین اسلام کی باقی تعلیمات پر وحدت الوجود اور حلول کے کیا اثرات ہیں، یہ الگ تفصیل طلب موضوع ہے جو ہماری کتاب کے موضوع سے ہٹ کر ہے، اس لیے ہم مختصراً چند باتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ٭ رسالت بہت سے صوفیاء کے نزدیک ولایت، نبوت اور رسالت دونوں سے افضل ہے۔شیخ محی الدین ابن عربی کا قول ہے: ’’نبوت کا مقام درمیانی درجہ ہے، ولی سے نیچے اور رسالت سے اوپر۔‘‘ بایزید بسطامی کا قول ہے: ’’میں نے سمندر میں غوطہ لگایا جبکہ انبیاء اس کے ساحل ہی پر کھڑے ہیں۔‘‘ نیز کہا: ’’میرا جھنڈا قیامت کے روز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے سے بلند ہوگا۔‘‘ نظام الدین اولیاء کا قول ہے: ’’پیر کا فرمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرح ہے۔‘‘ حافظ شیرازی کا قول ہے: ’’اگر تجھے بزرگ پیر اپنے مصلے کو شراب میں رنگین کرنے کا حکم دے تو ضرور کر کہ سالک کو (سلوک کی) منزلوں کے آداب سے ناواقف نہیں ہونا چاہیے۔‘‘[1] اہل تشیع کے نزدیک بھی ولایتِ علی (یا امامت علی) نبوت سے افضل ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے بعض روایات بھی وضع کی گئی ہیںلَو لَا عَلِی لَمَا خَلَقَکَ (یعنی اگر علی نہ ہوتے تو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا) (اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش، ص: 83) اسی طرح جنگ احد میں نادِ علی کی روایت بنائی گئی، یہ عجیب اتفاق ہے کہ اہل تشیع اور اہل تصوف کے بنیادی عقائد بالکل یکساں ہیں، دونوں
Flag Counter