Maktaba Wahhabi

180 - 315
نے نبوت سے سرفراز فرمایا، اُن میں سے ہر ایک نبی نے اللہ کے بندے بننے کی دعوت دی، کسی ایک نے بھی یہ دعوت نہیں دی کہ‘‘ اللہ کے سوا میرے بندے بن جاؤ۔‘‘ معلوم ہوا کہ تمام انبیاء علیہم السلام ’’ مِنْ دُوْنِ اللّٰہ ‘‘ ہیں، اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر ہر نبی کو ’’ مِنْ دُوْنِ اللّٰہ ‘‘ ہی کہا ہے۔اگر یہ کہنا اُن کی گستاخی ہوتی یا اس میں انبیاء علیہم السلام کی توہین کا کوئی پہلو ہوتا۔نعوذ باللّٰہتو اللہ تعالیٰ قطعاً ایسا نہ فرماتا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے اور ان کے احترام کا حکم دیتا ہے، وہ ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہے کہ جس سے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی لازم آتی ہو! دوسری بات یہ ہے کہ ان تفاسیر کے مطابق جب یہود نے یہ تہمت لگائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اپنی عبادت چاہتے ہیں۔نعوذ باللّٰہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں اس چیز سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ ’’غیراللہ‘‘ کی عبادت کا حکم دوں۔‘‘ پیر نصیر الدین گولڑوی صاحب نے ’’نکتہ دقیقہ‘‘ کے عنوان سے تفصیلی کلام کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے: ’’یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ’’غیراللہ‘‘ اپنے لیے ہی استعمال فرمایا اور متعدد تفاسیر کے حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت محولہ بالا میں ﴿ مَا كَانَ لِبَشَرٍ ﴾سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘[1] دوسرا مقام ﴿ وَإِذْ قَالَ اللّٰهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جب اللہ فرمائے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ!کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو خدا بنا لو اللہ کے سوا؟‘‘[2] مفتی احمد یار خان گجراتی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’ دُوْنَ بہت معنی میں آتا ہے: دور، علیحدہ، مقابل، سوا، نہ کہ، غیر یہاں بمعنی سوا ہے کیونکہ کوئی
Flag Counter