Maktaba Wahhabi

57 - 315
قہار لیکن قرآن کہتا ہے وہ ’’اسمائے حسنیٰ‘‘ ہیں کیونکہ ان میں قدرت و عدالت کا ظہور ہے۔اور قدرت و عدالت حسن و خوبی ہے، چنانچہ سورۂ حشر میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال کا بھی ذکر ہے اور متصل بعد ان سب کو ’’اسمائے حسنیٰ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿هُوَ اللّٰهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (23) هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾ ’’اللہ وہ ہستی ہے کہ اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، نہایت پاک ہے، سلامتی والا ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، سب پر غالب ہے، زور آور ہے، بڑائی والا ہے، اللہ پاک ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔وہ اللہ ہے، خالق ہے، موجد اور صورت گر ہے، اسی کے لیے سب سے اچھے نام ہیں۔جو چیز بھی آسمانوں اور زمین میں ہے، اسی کی تسبیح پڑھتی ہے اور وہ نہایت غالب، خوب حکمت والاہے۔‘‘[1] نیز فرمایا: ﴿وَلِلّٰهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ﴾ ’’اور اللہ ہی کے لیے سب سے اچھے نام ہیں، لہٰذا تم اسے ان ناموں کے ساتھ پکارو اور جن لوگوں کا شیوہ ہے کہ اس کے ناموں میں کجی اختیار کرتے ہیں، انھیں (ان کے حال پر) چھوڑ دو۔‘‘[2] 3 شرکیہ تصورات کی کلی روک تھام: جہاں تک توحید و شرک کا تعلق ہے، قرآن کا تصور اس درجہ کامل اور بے لچک ہے کہ اس کی کوئی مثال سابقہ مذاہب کے تصورات میں نہیں ملتی۔اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنی صفات و افعال میں بھی یگانہ ہو کیونکہ اگر کوئی دوسری ہستی اس کی صفات یا اس کے افعال میں شریک مان لی جائے تو اس کی ذات کی وحدانیت کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی۔قرآن سے پہلے توحید کے ایجابی پہلو پر تو تمام مذاہب نے زور دیا ہے لیکن سلبی پہلو نمایاں نہیں ہوسکا۔ایجابی پہلو یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، سلبی یہ ہے کہ اس کی طرح کوئی نہیں۔اور جب اس کی طرح کوئی نہیں تو
Flag Counter