Maktaba Wahhabi

58 - 315
ضروری ہے کہ اس کی صفات اور اس کے افعال میں بھی کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔پہلی بات توحید فی الذات اور دوسری توحید فی الصفات سے تعبیر کی گئی ہے۔پہلے مذاہب میں تمام تر زور توحید فی الذات پر دیا گیا، توحید فی الصفات کا تصور اپنی ابتدائی اور سادہ حالت میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن سے قبل عقیدۂ توحید کی تعلیم موجود تھی لیکن کسی نہ کسی صورت میں شخصیت پرستی، مظاہر پرستی اور بت پرستی نمودار ہوتی رہی اور مذہب کے رہنما اس کا دروازہ بند نہ کر سکے۔سابقہ تہذیبوں میں سقراط کے علاوہ کسی نے بت پرستی کے عقائد میں حائل ہونے کی کوشش نہیں کی۔ہندوستان اور یونان وغیرہ سب خواص کے لیے توحید اور عوام کے لیے دیوتاؤں کی پرستش کے قائل رہے۔قرآن نے اس تصور کو ختم کیا۔ دنیا میں گمراہی کا بڑا سبب یہ رہا ہے کہ لوگوں نے معلم و رہنما ہی کو بالآخر الٰہ کا درجہ دے دیا۔یہ ظاہر ہے کہ کوئی تعلیم اس وقت تک رفعت و عظمت حاصل نہیں کرسکتی جب تک معلم کی شخصیت میں بھی عظمت کی شان پیدا نہ ہو لیکن شخصیت کی عظمت کی حدود کیا ہیں؟ یہیں آکر سب نے ٹھوکر کھائی اور وہ اس کی ٹھیک ٹھیک حد بندی نہ کر سکے۔نتیجہ یہ نکلا کہ اسی رہنما کو کبھی خدا کا اوتار بنا دیا، کبھی ابن اللہ سمجھ لیا اور کبھی شریک اور ساجھی قرار دے دیا۔اور اگر یہ نہیں کیا تو کم از کم اس کی تعظیم میں بندگی و نیاز کے انداز پیدا کر دیے۔یہودیوں نے اپنے ابتدائی دور کی گمراہیوں کے بعد کبھی ایسا نہیں کیا کہ پتھر کے بت تراش کر ان کی پوجا کی ہو لیکن اس بات سے نہ بچ سکے کہ اپنے نبیوں کی قبروں پر ہیکل تعمیر کر کے انھیں عبادت گاہوں کی سی شان و تقدیس دے دیتے تھے۔اسی طرح گو تم بدھ نے ہمیشہ بت پرستی کی مذمت کی بلکہ اس کی آخری وصیت یہ تھی: ’’ایسا نہ کرنا کہ میری نعش کی راکھ کی پوجا شروع کر دو۔اگر تم نے ایسا کیا تو یقین کرو کہ نجات کی راہ تم پر بند کر دی جائے گی۔‘‘ لیکن اس کی وصیت پر جو عمل ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔نہ صرف گوتم بدھ کی خاک اور یادگاروں پر معبد تعمیر کیے گئے بلکہ مذہب کی اشاعت کا ذریعہ ہی اسی کو سمجھ لیا گیا کہ اس کے مجسموں سے زمین کا کوئی گوشہ خالی نہ رہے۔دنیا میں کسی معبود کے اتنے مجسمے نہیں بنائے گئے جتنے گوتم بدھ کے بنائے گئے۔اسی طرح مسیحیت کی حقیقی تعلیم سر تا سر توحید کی تعلیم تھی لیکن اس کے ظہور پر ابھی سو برس نہیں گزرے تھے کہ
Flag Counter