Maktaba Wahhabi

160 - 315
٭ جزا و سزا فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کے مطابق چونکہ انسان خود تو کچھ بھی نہیں بلکہ وہی ذات برحق کائنات کی ہر چیز (بشمول انسان) میں جلوہ گر ہے، لہٰذا انسان وہی کرتا ہے جو ذات برحق چاہتی ہے۔انسان اسی راستے پر چلتا ہے جس پر وہ ذات برحق چلانا چاہتی ہے۔ ’’انسان کا اپنا کوئی ارادہ ہے نہ اختیار‘‘ اس نظریے نے اہل تصوف کے نزدیک نیکی اور برائی، حلال اور حرام، اطاعت اور نافرمانی، ثواب و عذاب، جزا و سزا کا تصور ہی ختم کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر صوفیاء حضرات نے اپنی تحریروں میں جنت اور دوزخ کا تمسخر اور مذاق اڑایا ہے۔ نظام الدین اولیاء کے ملفوظات ’’فوائد‘‘ میں ہے: ’’قیامت کے روز حضرت معروف کرخی کو حکم ہوگا بہشت میں چلو، وہ کہیں گے میں نہیں جاتا، میں نے تیری بہشت کے لیے عبادت نہیں کی تھی، چنانچہ فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ انھیں نور کی زنجیروں سے جکڑ کر کھینچتے کھینچتے بہشت میں لے جاؤ۔‘‘[1] رابعہ بصری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک روز دائیں ہاتھ میں پانی کا پیالہ اور بائیں ہاتھ میں آگ کا انگارہ لیا اور فرمایا: یہ جنت ہے اور یہ جہنم ہے، اس جنت کو جہنم پر انڈیلتی ہوں تاکہ نہ رہے جنت اور نہ رہے جہنم اور لوگ خالص اللہ کی عبادت کریں۔[2] ٭ کرامات صوفیائے کرام، وحدت الوجود اور حلول کے قائل ہونے کی وجہ سے اس بات کے قائل ہیں کہ ان کے اکابر خدائی اختیارات رکھتے ہیں، اس لیے زندوں کو مار سکتے ہیں، مردوں کو زندہ کر سکتے ہیں، ہوا میں اڑ سکتے ہیں، قسمتیں بدل سکتے ہیں۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں: 1 ایک دفعہ پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی نے مرغی کا سالن کھا کر ہڈیاں ایک طرف رکھ دیں۔ان ہڈیوں
Flag Counter