Maktaba Wahhabi

206 - 315
یوں وسیلے کی دو صورتیں ہوئیں: 1 صحیح اور شرعی وسیلہ۔اس میں وہ تمام صورتیں آجاتی ہیں، جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔2 غیر شرعی اور غلط وسیلہ۔اس سے مراد قربِ الٰہی یا مقصود کے حصول کا ہر وہ طریقہ ہے جو قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو۔ صحیح اور شرعی وسیلہ اس کی درج ذیل صورتیں ہیں: 1 اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ وسیلہ: اس کی دو صورتیں ہیں: ٭ عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے حسنیٰ کا وسیلہ اختیار کرنا جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں غم و فکر دور کرنے کی یہ دعا ہے: ((اَللّٰھُمَّ!إِنِّی عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ، وَابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِیَتِی بِیَدِكَ، مَاضٍ فِیَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَكَ، سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَہُ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِی كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِی، وَنُورَ صَدْرِی، وَجِلَاءَ حُزْنِی، وَذَھَابَ ھَمِّی)) ’’اے اللہ!بے شک میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری باندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، میرے وجود میں تیرا ہی حکم جاری ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ مبنی برعدل و انصاف ہے۔اے ا للہ!میں تجھ سے تیرے ہر اس پاک نام کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں جو تیرا نام ہے اور جس سے تو نے اپنی ذات کو موسوم کیا ہے یا جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی سکھایا ہے، یا جو تو نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے یا جسے تو نے اپنے پاس علم غیب میں رکھنے کو ترجیح دی ہے کہ قرآن مجید کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور اور میرے غموں اور دکھوں کو دور کرنے والا بنا دے۔‘‘[1]
Flag Counter