Maktaba Wahhabi

196 - 315
غیر شرعی شفاعت کا عقیدہ لغوی طور پر شفاعت، شفع سے ماخوذ ہے اور یہ وتر کی ضد ہے۔اس کے معنی طاق کو جفت، یعنی جوڑا بنانا ہیں، مثلاً: ایک کو دو اور تین کو چار بنا دینا۔ شرعی اصطلاح میں فائدہ حاصل کرنے اور نقصان سے محفوظ رہنے کے لیے کسی کو واسطہ بنانا شفاعت یا سفارش کہلاتا ہے۔ شفاعت کا تعلق اگر دنیاوی معاملات سے ہو اور جائز امور اور معاملات میں کسی مستحق آدمی کی سفارش کرنا مقصود ہو تو یہ نہ صرف جائز بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِشْفَعُوا تُؤْجَرُوا)) ’’سفارش کرو اور اجر وثواب حاصل کرو۔‘‘[1] تاہم ناجائز امور و معاملات میں سفارش کرنا باعث عذاب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتَہُ دُوْنَ حدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ فَقَدْ ضَادَّ اللّٰہَ)) ’’جس شخص کی سفارش اللہ تعالیٰ کی حدود کے نفاذ میں رکاوٹ بنی، اس نے اپنے آپ کو اللہ کے مقابل لا کھڑا کیا۔‘‘[2] سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے مخزوم قبیلے کی فاطمہ نامی عورت کی سفارش کی کہ اس سے درگزر سے کام لیا جائے، چوری کرنے کی وجہ سے اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ((أَتَشْفَعُ فِی حَدٍّ مِّنْ حُدُودِ اللّٰہِ؟))’’کیا تم اللہ کی حدود کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟‘‘[3]
Flag Counter