Maktaba Wahhabi

130 - 315
اخلاص کا مفہوم: انسان ظاہر و باطن کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کرے اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا ارادہ رکھے، اس کی رضا کے مقام، یعنی جنت میں داخل ہونے کے لیے کوشاں رہے اور اللہ کے سوا کسی مقرب فرشتے یا کسی نبی اور رسول کی بندگی اختیار کرے نہ اس کی خوشنودی کا ارادہ رکھے۔اخلاص کا مفہوم یہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ ’’پھر ہم نے آپ کی طرف یہ وحی کی کہ آپ ملت ابراہیم کی اتباع کریں جو (اللہ کی طرف) یکسو تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘[1] نیز فرمایا: ﴿وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (130) إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (131) وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّٰهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ﴾ ’’اور ملت ابراہیم سے کون بے رغبتی کرسکتا ہے سوائے اس کے جس نے اپنے نفس کو احمق بنالیا اور بے شک ہم نے ابراہیم کو دنیا میں بھی چن لیا اور وہ آخرت میں بھی یقینا نیکوکاروں میں سے ہوں گے اور جب ابراہیم سے ان کے رب نے کہا: فرماں بردار ہو جائیں تو انھوں نے کہا: میں رب العالمین کا فرماں بردار ہو گیا۔ابراہیم نے اور یعقوب نے بھی اپنے بیٹوں کو اسی کی وصیت کی: اے میرے بیٹو!بے شک اللہ نے تمھارے لیے اسی دین کو چن لیا ہے، تمھیں ہرگز کسی اور حالت میں موت نہ آئے سوائے اس حالت کے کہ تم مسلمان ہو۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کو اسی دین حنیف پر کار بند رہنے کا حکم دیا اور اسی لیے انھیں پیدا کیا کہ وہ اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter