Maktaba Wahhabi

215 - 315
وسیلے سے تجھ سے بارش طلب کرتے تھے اور تو ہمیں بارش عطا فرماتا تھا۔اور اب ہم تیرے نبی کے چچا کے وسیلے سے پانی کے طالب ہیں تو تو ہمیں بارش عطا فرما دے۔‘‘[1] اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی ذات کا وسیلہ لیتے تھے، لیکن حق یہ ہے کہ جس طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حیات نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا وسیلہ لیتے تھے اسی طرح سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی ذات کا نہیں بلکہ دعا کا وسیلہ لیا تھا۔جیسا کہ اس حدیث کے تمام طرق کو جمع کر کے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے۔[2] 2 کسی کے رتبے اور مقام کا وسیلہ کسی نبی، ولی اور شہید کے رتبے اور مقام کے وسیلہ سے اللہ سے کچھ طلب کرنا، مثلاً اے اللہ!میں تجھے فلاں نبی کے جاہ و عظمت کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرا فلاں کام کر دے۔اے اللہ!تجھے تیرے پیارے حبیب کے جاہ و مقام کا واسطہ ہے کہ جس طرح تو نے انھیں بخشا ہے مجھے بھی معاف کر دے، وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ احادیث صحیحہ و ثابتہ اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس کا ثبوت نہیں ہے۔اس لیے یہ صورت بھی بدعت اور شرک اکبر کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے ممنوع ہوگی۔اگر وسیلہ کی یہ صورت کسی معنی میں جائز و مشروع ہوتی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی پاک جماعت اسے ترک نہ کرتی۔ ایک شبہ اور اس کا ازالہ یہاں کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ اس مشہور حدیث کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جو ان الفاظ میں مروی ہے: ((تَوَسَّلُوا بِجَاھِی فَإِنَّ جَاھِی عِنْداللّٰہِ عَظِیمٌ)) ’’میرے جاہ و رتبے کا وسیلہ لو اس لیے کہ میرا رتبہ اللہ کے نزدیک بہت عظیم ہے۔‘‘
Flag Counter