Maktaba Wahhabi

60 - 315
اس اقرار میں جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعتراف کیا گیا ہے، ٹھیک اسی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجۂ رسالت دونوں کا اعتراف و اقرار بھی ساتھ ہی موجود ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ پیغمبر اسلام کی بندگی اور رسالت کا اعتقاد اسلام کی اصل و اساس بن جائے اور اس بات کا کوئی موقع ہی باقی نہ رہے کہ عبدیت کی جگہ معبودیت کا اور رسالت کی جگہ اوتار (خدا کا انسان کے روپ میں اصلاح کے لیے زمین پر آنے) کا خیال پیدا ہو۔ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اس معاملے کا کوئی اور تحفظ نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی شخص دائرۂ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی کا اقرار نہ کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں میں بہت اختلاف پیدا ہوئے لیکن وفات کے فوری بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں اختلاف کا خدشہ پیدا ہونے لگا تو آپ کی وفات کے چند ہی گھنٹے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا: ((مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا صلي اللّٰه عليه وسلم فَإِنَّ مُحَمَّدًا صلي اللّٰه عليه وسلم قَدْمَاتَ، وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَإِنَّ اللّٰہَ حَيٌّ لَایَمُوتُ)) ’’تم میں سے جو شخص سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا، سو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی عبادت کرتا تھا، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی ذات ہمیشہ زندہ ہے، اس کے لیے موت نہیں۔‘‘[1] 4 عوام اور خواص دونوں کے لیے ایک تصور: قرآن سے پہلے علوم و فنون کی طرح مذہبی عقائد میں بھی خاص و عام کا امتیاز ملحوظ رکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک تصور تو حقیقی ہے اور وہ خواص کے لیے ہے اور ایک تصور مجازی ہے جو عوام کے لیے ہے، چنانچہ ہندوستان میں معرفت الٰہی کے تین درجے قرار دیے گئے۔ ٭ عوام کے لیے دیوتاؤں کی پرستش ٭ خواص کے لیے براہ راست خدا کی پرستش
Flag Counter