Maktaba Wahhabi

186 - 315
مذکورہ بالا تینوں بریلوی اکابر اس بات پر متفق ہیں کہ ’’ عِبَادِی ‘‘ یعنی ’’میرے بندوں‘‘ سے مراد سیدنا عیسیٰ، سیدنا عزیر اور ملائکہ ہیں۔قرآن مجید کی زیر بحث آیت میں ان کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ’’ مِنْ دُوْنِی ‘‘ یعنی ’’میرے علاوہ‘‘ یا ’’میرے سوا‘‘ کے الفاظ استعمال کیے اور جن لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کو اپنا ’’کارساز‘‘ یعنی کام بنانے والا اور کام سنوارنے والا سمجھا، اللہ تعالیٰ نے انھیں عذاب کی وعید سنائی۔اور انھیں ’’حمایتی یا کارساز‘‘ بنانے کو مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی بھی ’’شرک‘‘ قرار دے کر ایسے عقائد کی تردید فرما رہے ہیں۔ ذرا سوچیے!جن لوگوں نے انبیاء علیہم السلام جیسی مقدس، مقرب و برگزیدہ شخصیات کو ’’کار ساز‘‘ یا بگڑی بنانے والے سمجھا، انھیں تو اللہ تعالیٰ نے عذاب کی وعید سنائی تو کیا جو بابا فرید، بابا علی ہجویری، بابا معین الدین چشتی وغیرہم کو اپنے ’’اولیاء‘‘ و ’’کارساز‘‘ اور بگڑی بنانے والے سمجھے تو اس کے لیے یہ وعید نہیں؟ انبیاء علیہم السلام کو کارساز بنانے والوں کے لیے تو وعید ہو اور امتیوں میں سے صالحین کو ’’کارساز‘‘ بنانے کے لیے کوئی وعید نہ ہو؟ اور قرآن مجید کی نص سے انبیاء علیہم السلام تو ’’اللہ کے سوا‘‘ ثابت ہوں مگر صاحبانِ مزارات ’’اللہ کے سوا‘‘ نہ ہوں؟!کسی بندے کا اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا، اس کے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا عطا کردہ ہوتا ہے، لہٰذا یہ دعویٰ کہ فلاں فوت شدہ مقدس ہستی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی تصرف کرنے کا اختیار عطا ہوا ہے۔یہ سراسر ایک غیبی معاملہ ہے اور غیبی معاملہ کوئی بھی ہو وہ سچی خبر کے بغیر واجب الایمان نہیں ہوسکتا اور اس قسم کی کوئی سچی بات کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس قسم کے دعوے ظن محض کی پیروی کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ چھٹا مقام ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ (98) لَوْ كَانَ هَؤُلَاءِ آلِهَةً مَا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ (99) لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ (100) إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ﴾
Flag Counter