Maktaba Wahhabi

34 - 315
جو کچھ کرتا ہے وہ نیکی اور روشنی ہے اور ’’اہرمن‘‘ جو کچھ کرتا ہے وہ شر اور اندھیرا ہے، عبادت کی بنیاد سورج اور آگ کی پوجا پر رکھی گئی کہ روشنی خدائی صفات کی سب سے بڑی مظہر ہے۔کہا جاسکتا ہے کہ مجوسی تصور نے نیکی اور بدی کی گتھی یوں سلجھانی چاہی کہ اس دنیا کی سربراہی آپس میں لڑنے والی دو طاقتوں میں تقسیم کر دی۔ 4 یہودی تصور سیدنا یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے۔ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے بے شمار نبی اور رسول مبعوث فرمائے، جو انھیں توحید کا درس دیتے رہے۔انبیاء کو قتل کرنے اور ان کی توہین کے جرم میں اللہ تعالیٰ نے انھیں بدترین غلامی میں ڈال دیا۔فرعون ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا اور مردوں کو قتل کر دیتا تھا۔بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی نجات کے لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔فرعون کو غرق کر کے بنی اسرائیل کو نجات دی، پھر ان کی ہدایت کے لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا فرمائی۔اب موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کو یہود کہا جاتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یہود اپنے آپ کو مذہبی لیڈر تصور کرتے تھے۔وہ بلاشرکت غیرے مذہبی اجارہ داری کے دعویدار تھے۔وہ توحید کے دعویدار تھے۔ذات باری تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے۔لیکن توحید کی حقیقت سے بہت دور جاچکے تھے۔انھوں نے تورات کی تعلیمات کو بدل کر من مانا مذہب ایجاد کر لیا تھا۔اگرچہ مختلف ادوار میں ان کی طرف انبیاء و رسل آتے رہے لیکن اسلام کے ظہور کے وقت ذات باری تعالیٰ کے بارے میں ان کے نظریات دھندلا گئے تھے۔قرآن نے ان کی فکری گمراہیوں کی جابجا نشان دہی کی ہے۔یہودی تصور میں خدا کی حیثیت یہ تھی کہ وہ جابر بادشاہ کی طرح قہر آلود تھا یا غیرت میں ڈوبے ہوئے شوہر کی طرح سخت گیر اس تصور کی مختصر حقیقت کچھ یوں ہے: یہودی تصور ابتدا میں ایک مختصر اور محدود سا نسلی تصور تھا، یعنی کتاب پیدائش کا ’’یہوا‘‘ خاندان اسرائیل کے نسلی خدا کی حیثیت سے ظاہر ہوا تھا لیکن پھر یہ تصور بتدریج وسیع ہوتا گیا یہاں تک کہ یَشْعَیَا دوم کے صحیفے میں ’’تمام قوموں کا خدا‘‘ اور ’’تمام قوموں کا ہیکل‘‘ بن گیا، تاہم اسرائیل کے ہاں ’’خدا کا خصوصی نسلی نظریہ‘‘ کسی نہ کسی شکل میں برابر کام کرتا رہا اور ظہور اسلام کے وقت بھی اس کی یہی صورت حال تھی۔
Flag Counter