Maktaba Wahhabi

214 - 315
((مَنْ أَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ)) ’’جس نے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے، وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘[1] دوسرے لفظوں میں یہ حدیث یوں آئی ہے: ((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَھُوَرَدٌّ)) ’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘[2] اس قاعدے کو سامنے رکھ کر ’’ذات کا وسیلہ‘‘ لینے پر جب نظر ڈالتے ہیں تو قرآن حکیم یا احادیث نبویہ سے اس کا کہیں بھی ثبوت نہیں ملتا اور نہ کسی صحابی و تابعی نے اس پر عمل ہی کیا ہے اور نہ مشہور ائمۂ دین میں سے کسی کا قول معروف ہے۔اس لیے بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ یہ وسیلہ بدعت اور شرک کا راستہ ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اس کے بدعت ہونے پر ائمہ کا اتفاق ہے۔خیرالقرون میں کسی نے بھی اس توسل کو جائز نہیں سمجھا۔امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ سے اس وسیلہ کا ناجائز اور مکروہ ہونا صراحت کے ساتھ ثابت ہے۔فرمایا: ((لاَ یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یَدْعُوَ اللّٰہَ إِلَّا بِہٖ وَالدُّعَاءُ المَأْذُونُ فِیہِ وَالْمَأْمُورُ بِہٖ مَا اسْتُفِیدَ مِنْ قَوْلِہٖ تَعَالیٰ ﴿ولِلّٰہِ الأسْمَاءُ الحُسْنیٰ فَادْعُوہُ بِھَا﴾)) ’’کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنیٰ کے علاوہ کسی اور واسطے سے پکارے۔اور جس دعا کی اجازت اور حکم ہے وہ وہی ہے جس کا ثبوت آیت کریمہ ﴿ولِلّٰہِ الأسْمَاءُ الحُسْنیٰ فَادْعُوہُ بِھَا﴾میں موجود ہے۔‘‘[3] ایک شبہ اور اس کا ازالہ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب کے وسیلے سے پانی طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’اے اللہ ہم تیرے نبی کے
Flag Counter