Maktaba Wahhabi

111 - 315
’’(یقینا وہ لوگ کامیاب ہیں جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں) مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جوان کی ملکیت میں ہوتی ہیں۔‘‘[1] اور بھی بہت سی نصوص سے غیراللہ کی طرف ملکیت کی نسبت ثابت ہے لیکن یہ ملکیت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ملکیت کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہ تو ادھوری، مشروط اور مقید ملکیت ہے اورجو ادھوری ملکیت ہو وہ صحیح معنی میں ملکیت نہیں ہوتی، پھر یہ ملکیت مقید بھی ہے، یعنی انسان اپنی ملکیت میں صرف اسی طرح کا تصرف کر سکتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اسے اجازت دی ہو۔یہی وجہ ہے کہ جہاں یتیموں کے مال میں تصرف کرنے کا اختیار دیا گیا ہے وہیں مال ضائع کرنے سے منع بھی کیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيَامًا ﴾ ’’اور تم اپنے مال نادان لوگوں کے حوالے مت کرو جسے اللہ تعالیٰ نے تمھاری گزران کو قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘[2] انسان کی ملکیت ناقص اور مقید ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت تام، جامع اور مطلق ہے، اس لیے مخلوق کی طرف ملکیت کی نسبت کرتے وقت ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں جس سے مطلق ملکیت کا شبہ پیدا ہوتا ہو، نیز عقیدہ بھی یہی ہونا چاہیے کہ مالکِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ جو چاہے کرے اسے کوئی پوچھ نہیں سکتا جبکہ مخلوق سے یقینا باز پرس ہوگی۔ 3 تدبیر: اللہ عزوجل تدبیر میں بھی منفر دہے۔وہی اپنی مخلوق کی تدبیر اور آسمانوں اور زمین کا انتظام کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُتَبَارَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴾ ’’دیکھو!سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے، اللہ رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔‘‘[3] اللہ تعالیٰ کایہ انتظام بہت مضبوط اور مستحکم ہے۔نہ کوئی چیز اس کے رستے میں حائل ہوسکتی ہے، نہ اس کی مخالفت کرسکتی ہے جبکہ انسان کا اپنے اموال، اولاد اور خدام وغیرہ کا انتظام کرنا مطلق نہیں ہے بلکہ بہت معمولی، بہت محدود اور مقید انتظام ہے۔اس تفصیل سے ہماری یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ توحید ربوبیت
Flag Counter