Maktaba Wahhabi

171 - 315
ساتھی ویسا نہیں تو وہ تہمت اسی پر لوٹ آئے گی۔‘‘[1] مزید فرمایا: ((وَمَنْ رَمَی مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ، فَھُوَ كَقَتْلِہِ)) ’’اور جس شخص نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی، یہ اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔‘‘[2] اور فرمایا: ((إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِیہِ: یَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِہِ أَحَدُھُمَا)) ’’جب آدمی اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اس کا مستحق ٹھہرتا ہے۔‘‘[3] عمومی حکم اور متعین حکم میں فرق اہل بدعت پر مطلقاً معصیت کا یا کفر کا حکم لگانا … اور کسی شخص کو جس کا اسلام یقینی طور پر ثابت ہو اور پھر اس سے کسی بدعت کا ارتکاب ہوا ہو، متعین طور پر اسے معصیت کار، فاسق یا کافر قرار دینا، اہل سنت والجماعت کے نزدیک ان دونوں باتوں میں نمایاں فرق ہے۔ وہ کسی مسلمان کو متعین طور پر معصیت کار، فاسق یا کافر نہیں کہتے یہاں تک کہ اس پر حجت قائم کرکے اور اس کے شبہات کا ازالہ کرکے اس کے سامنے ’’حق‘‘ واضح نہ کردیا جائے۔ جس شخص کا اسلام یقینی طور پر ثابت ہے وہ شک کی بنیاد پر کا لعدم نہیں ہوتا۔یہ ایک بنیادی قاعدہ ہے جس پر ہمارے اسلاف عمل پیرا تھے۔یوں وہ تکفیر سے بہت دُور رہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب نہروان والوں کے بارے میں پوچھا گیا: کیا وہ کافر ہیں تو انھوں نے جواب دیا: ’’کفر ہی سے تو وہ بھاگے ہیں۔‘‘ پوچھا گیا: تو کیا وہ منافق ہیں؟ فرمایا: ’’منافق تو اللہ کا بہت کم ذکر کرتے ہیں اور وہ لوگ صبح و شام اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔بات صرف اِتنی ہے کہ وہ ہمارے بھائی ہیں جنھوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔‘‘[4] مسئلہ تکفیر کے سلسلے میں نوع (اصل) کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور عین (فرع) کا بھی، اس لیے کہ ہر کفر ایسا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے کسی متعین شخص کو کافر قرار دیا جائے۔کسی بات کے متعلق یہ حکم لگانا کہ یہ کفر ہے اور اس بات کے کہنے والے کو متعین کر کے یہ کہنا کہ یہ کافر ہے، ان دونوں باتوں
Flag Counter