Maktaba Wahhabi

162 - 315
9 میاں اسماعیل لاہوری المعروف میاں وڈا نے صبح کی نماز کے بعد سلام پھیرتے وقت جب نگاہ کرم ڈالی تو دائیں طرف کے مقتدی سب کے سب حافظ بن گئے اور بائیں طرف کے ناظرہ پڑھنے والے بن گئے۔[1] 10 خواجہ علاؤ الدین صابر کلیری کو خواجہ فرید الدین گنج شکر نے کلیر بھیجا، ایک روز خواجہ صاحب امام کے مصلے پر بیٹھ گئے۔لوگوں نے منع کیا تو فرمایا: قطب کا رتبہ قاضی سے بڑھ کر ہے، لوگوں نے زبردستی مصلے سے اٹھا دیا، حضرت کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جگہ نہ ملی تو مسجد کو مخاطب کر کے فرمایا: لوگ سجدہ کرتے ہیں تو بھی سجدہ کر۔یہ بات سنتے ہی مسجد مع چھت اور دیوار کے لوگوں پر گر پڑی اور سب لوگ ہلاک ہوگئے۔[2] ٭ باطنیت کتاب و سنت سے براہ راست متصادم عقائد و افکار پر پردہ ڈالنے کے لیے اہل تصوف نے باطنیت کا سہارا بھی لیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ قرآن و حدیث کے الفاظ کے دو دو معانی ہیں، ایک ظاہری دوسرے باطنی (یاحقیقی) یہ عقیدہ باطنیت کہلاتا ہے۔اہل تصوف کے نزدیک دونوں معانی کو آپس میں وہی نسبت ہے جو چھلکے کو مغز سے ہوتی ہے، یعنی باطنی معنی ظاہری معنی سے افضل اور مقدم ہیں۔ظاہری معانی سے تو علماء واقف ہیں لیکن باطنی معانی کو صرف اہل اسرار و رموز ہی جانتے ہیں۔ان اسرار و رموز کا منبع اولیائے کرام کے مکاشفے، مراقبے، مشاہدے اور الہام یا پھر بزرگوں کا فیض اور توجہ قرار دیا گیا ہے جس کے ذریعے سے شریعت مطہرہ کی من مانی تاویلیں کی گئیں، مثلاً: قرآن مجید کی آیت: ﴿ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ﴾ ’’اورآپ اپنے رب کی عبادت کریں حتی کہ آپ کے پاس یقین(موت) آجائے۔‘‘[3] اہل تصوف کے نزدیک یہ علماء (اہل ظاہر) کا ترجمہ ہے۔اس کا باطنی یا حقیقی ترجمہ یہ ہے: ’’صرف اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرو جب تک تمھیں یقین (معرفت) حاصل نہ ہو جائے۔‘‘ یقین یا معرفت سے مراد معرفت الٰہی ہے، یعنی جب اللہ کی پہچان ہو جائے تو صوفیاء کے نزدیک نماز، روزہ، زکاۃ، حج اور تلاوت وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔[4] نعوذ باللّٰہ من ذلك۔
Flag Counter