Maktaba Wahhabi

163 - 315
نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام تو زندگی کے آخری لمحوں تک عبادت کرتے رہے اور اسی کا حکم دیتے رہے۔اسی طرح سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 ﴿ وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾ یعنی وہ تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی۔‘‘ یہ علماء کا ترجمہ ہے اور اہل اسرار و رموز کا ترجمہ یہ ہے: ’’تم عبادت نہ کرو گے مگر وہ اسی (اللہ) کی ہوگی جس چیز کی بھی عبادت کرو گے۔‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ تم خواہ کسی انسان کو سجدہ کرو یا قبر کو یا کسی مجسمے اور بت کو وہ درحقیقت اللہ ہی کی عبادت ہوگی۔ کلمہ توحید لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ’’اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘‘ صوفیاء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ لَا مَوْجُودَ اِلَّا اللّٰہ، یعنی دنیا میں اللہ کے سوا کوئی چیز موجود نہیں۔الٰہ کا ترجمہ موجود کر کے اہل تصوف نے کلمۂ توحید سے اپنا نظریہ وحدت الوجود تو ثابت کر دیا لیکن ساتھ ہی کلمہ توحید کو کلمہ شرک میں بدل ڈالا: ﴿ فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ ﴾ ’’تو جن لوگوں نے ظلم کیا انھوں نے بات کو اس سے جو انھیں کہا گیا تھا بدل کر کچھ اور کر دیا۔‘‘[1] باطنیت کے پردے میں کتاب و سنت کے احکامات اور عقائد کی من مانی تاویلوں کے علاوہ اہل تصوف نے کیف، جذب، مستی، استغراق، سکر (بے ہوشی) اور صحو (ہوش) جیسی اصطلاحات وضع کر کے جسے چاہا، حلال قرار دے دیا جسے چاہا، حرام ٹھہرا دیا۔ایمان کی تعریف یہ کی گئی کہ یہ دراصل عشق حقیقی (عشق الٰہی) کا دوسرا نام ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ فلسفہ تراشا گیا کہ عشق حقیقی کا حصول عشق مجازی کے بغیر ممکن ہی نہیں، چنانچہ عشق مجازی کے سارے لوازمات غنا، موسیقی، رقص و سرود، سماع، وجد، حال وغیرہ اور حسن و عشق کی داستانوں اور جام و سبو کی باتوں سے لبریز شاعری مباح ٹھہری۔شیخ حسین لاہوری، جن کے ایک برہمن لڑکے کے ساتھ عشق کا قصہ مشہور ہے، کے بارے میں ’’خزینۃ الاصفیاء‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ بہلول دریائی کے خلیفہ تھے، چھتیس سال ویرانے میں ریاضت و مجاہدہ کیا۔رات کو داتا گنج بخش کے مزار پر اعتکاف بیٹھتے۔آپ نے طریقہ ملامتیہ اختیار کیا، یعنی ابروکا صفایا، ہاتھ میں شراب کا پیالہ، سرود و نغمہ، چنگ و رباب، تمام
Flag Counter