Maktaba Wahhabi

213 - 315
کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب کوئی انسان غائبانہ طور پر اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: ((آمِینَ وَلَكَ بِمِثْلٍ))’’آمین (اے اللہ!قبول فرما) اور اللہ تجھے بھی اسی کی مانند عطا فرمائے۔‘‘[1] اس طرح کی دعا میں وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ احسان کرنے والوں میں سے ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ وسیلے کے ناجائز طریقے گزشتہ سطور میں ہماری گفتگو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ وسیلے کے صحیح طریقوں سے متعلق تھی، جسے قدرے تفصیل کے ساتھ ناظرین کے سامنے رکھا گیا، تاکہ مسئلہ کی یہ صورت بھی لوگوں کے سامنے واضح رہے اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ ہم وسیلے کا سرے سے انکار کرتے ہیں۔اب چند باتیں ان وسیلوں سے متعلق پیش کی جاتی ہیں، جن کا ثبوت نہ قرآن حکیم سے ہے اور نہ احادیث صحیحہ سے اور نہ خیرالقرون ہی میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ کا ان پر عمل رہا ہے۔اس توسل کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ 1 کسی کی ذات کا وسیلہ 2 کسی کی عظمت و رتبے کا وسیلہ 3 کسی کے حق کا وسیلہ 4 کسی غیر موجود یا فوت شدہ کی دعا کا وسیلہ 1 کسی کی ذات کا وسیلہ کسی نبی، ولی، شہید اور غازی کی ذات کا واسطہ دے کر اللہ سے کچھ طلب کرنا، مثلاً یوں کہنا کہ اے اللہ اپنے نبی کے صدقے مجھے بخش دے، اے اللہ تجھے تیرے حبیب کا واسطہ ہے کہ میری یہ ضرورت پوری کر دے، اے اللہ اولادِ علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کے صدقے میری مصیبت کو ٹال دے وغیرہ۔ چونکہ دعا اور وسیلہ خاص شرعی عمل اور عبادت کا معاملہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کے ثبوت میں قرآن حکیم یا احادیث صحیحہ سے کوئی دلیل ہو۔قاعدہ یہ ہے کہ جو عبادت قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہو اسے اصطلاح شرع میں بدعت کہا جائے گا۔چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
Flag Counter