Maktaba Wahhabi

201 - 315
﴿وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى ﴾ ’’اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں، جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی مگر اس کے بعد کہ اللہ جس کے لیے چاہے اجازت بخشے اور پسند کرے۔‘‘[1] اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سفارش کا اختیار نہ سفارش کرنے والے کو ہے اور نہ اُس شخص کا کوئی بس چل سکتا ہے، جو سفارش کا طلب گار ہے، اس لیے اپنی سعی و جہد کو بروئے کار نہ لانا، راہِ حق میں محنت نہ کرنا، عمل ترک کر دینا اور سفارش کے بل بوتے پر کامیابی کی آس لگائے رکھنا بہت بڑی نادانی ہے۔قرآن و حدیث میں ان اعمال پر بڑا زور دیا گیا ہے جن کے باعث انسان سفارش کرنے یا شفاعت حاصل کرنے کا اہل ہوگا۔ایسا کوئی حکم ہرگز نہیں دیا گیا کہ تم کسی کی شفاعت کے حصول کے لیے اسی کی بندگی شروع کر دو کیونکہ کسی کا کسی کے حق میں سفارش کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے، اس لیے اُسی کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی شفاعت کے متعلق سوال ہوا، آپ نے ہمیشہ عمل کی طرف راہ نمائی فرمائی۔ ثابت شدہ شفاعت کی دو صورتیں ہیں: شفاعتِ عامہ اور شفاعت خاصہ۔ ٭ شفاعتِ عامہ: اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں میں سے جن کو چاہے گا اور جن کے لیے چاہے گا، شفاعت کی اجازت عطا فرما دے گا۔یہ شفاعت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، دیگر انبیائے کرام، صدیقین، شہداء اور صالحین حتی کہ قرآن مجید، اس کی مختلف سورتیں اور روزہ وغیرہ بھی کریں گے۔اس شفاعت کے مختلف مراحل ہوں گے۔یہ قبر سے شروع ہو کر حشر تک ہوگی۔قبر میں دفن کرنے کے بعد دعا کی ترغیب اسی شفاعت کی ایک صورت ہے۔اسی طرح حدیث میں سورۂ ملک کے بارے میں ہے کہ وہ قبر کے عذاب سے بچائے گی۔[2] اور آخر میں جہنم جانے والے مومن گناہ گاروں کو اس سفارش ہی کی بنا پر اللہ تعالیٰ جہنم سے نکالے گا۔ ٭ شفاعت خاصہ: اس سے مراد وہ شفاعت ہے جو نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔اور قیامت کے دن سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو شفاعت ہوگی وہی شفاعتِ عظمیٰ ہے، یہ اس وقت ہوگی
Flag Counter