Maktaba Wahhabi

25 - 315
کی صورت حال یہ ہوچکی تھی کہ یہ ہر مذہب میں ضم ہو جاتا تھا۔یہ جب چین، کوریا اور جاپان میں پہنچاتو اسے ہندوستان اور سیلون (سری لنکا) سے مختلف قسم کی فضا ملی اور اس نے فوراً مقامی وضع قطع اختیار کر لی۔بدھ مت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خدا کی ہستی کے تصور سے خالی ہے لیکن بدھ کے پیروکاروں نے خود بدھ کو خدا کی جگہ دے دی اور اس کی پرستش کا ایسا نظام قائم کر دیا جس کی مثال کسی دوسرے صنم پرست مذہب میں نہیں ملتی، چنانچہ چین، کوریا اور جاپان کی عبادت گاہیں بھی اب اس نئے معبود کے بتوں سے معمور ہوگئیں۔ 2 ہندوستانی تصور ہندوستان کے تصور الوہیت کی تاریخ متضاد تصورات کا ایک حیرت انگیز مُرَقَّع (خاکہ) ہے۔ایک طرف اس کا توحیدی فلسفہ ہے، دوسری طرف اس کا عملی مذہب ہے۔توحیدی فلسفہ اس قدر گہرا اور فکری بلندیوں کی اس سطح پر پہنچا ہوا ہے کہ اس کی مثال قدیم قوموں کے مذہبی تصورات میں نہیں ملتی اور عملی مذہب میں معبودوں کی تعداد شمار سے باہر ہے۔صنم پرستی اس قدر پھیلی کہ ہر پتھر معبود ہوگیا، ہر درخت مشکل کشائی کرنے لگا اور ہر چوکھٹ سجدہ گاہ بن گئی۔خواص نے اپنے لیے توحید کا عقیدہ پسند کیا اور عوام کے لیے شرک اور بت پرستی کی راہ مناسب سمجھی۔ اُپَنشَد[1] (Upanisad)کا توحیدی اور وحدۃ الوجودی تصور: رِگْ وید[2] کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے پیروکار اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر کی پرستش کرتے تھے اور دوسری طرف ایک بالاتر اور ہر چیز کو پیدا کرنے والی ہستی کا توحیدی تصور بھی نظر آتا ہے، خصوصاً دسویں حصے کے زمزموں میں تو اس کی تصویر بہت واضح نظر آتی ہے لیکن کیا یہ توحیدی تصور کسی بہت پرانے گزشتہ عہد کے بنیادی تصور کا بقیہ تھا یا بہت زیادہ معبودوں سے تنگ مخلوق خود بخود فطرت کی طرف آرہی تھی؟ اس کا فیصلہ مشکل ہے، بہر حال ایک ایسے قدیم عہد میں بھی جبکہ رگ وید کے تصورات پھیلنا شروع ہوئے تھے، توحید کے تصور کی جھلک صاف صاف دیکھی جاسکتی ہے۔خداؤں کا وہ ہجوم جس کی تعداد تین سو تینتیس (333) یا اس سے بھی زیادہ
Flag Counter