Maktaba Wahhabi

38 - 315
اٹھایا اور کوئی بحث کیے بغیر فوراً پی لیا۔مرنے سے پہلے اس کے آخری الفاظ یہ تھے: ’’میں ایک گھٹیا دنیا سے بہتر دنیا کی طرف جارہا ہوں‘‘ اس کے بعد افلاطون نے سقراط کے نظریات کو ایک مکمل ضابطے کی شکل دی اور حکومت سے لے کر خدا کی ہستی تک، ہر چیز کے بارے میں مکمل ضابطہ مرتب کیا۔اس نے روح اور جسم کو کلی نفس اور نفس سے تعبیر کیا۔نفس سے مراد مادی بدن اور نفس کلی سے مراد روح ہے، پھر اس پر قیاس کرتے ہوئے کہا کہ نفسِ ناطقہ (بولنے والا) جب مادے سے علیحدہ وجود رکھتا ہے تو خدا کی ہستی بھی مادیات سے الگ امتیازی وجود رکھتی ہے۔ سقراط نے اللہ کی ہستی کے لیے ’’اگاتھو‘‘ (Agatho) یعنی ’’الخیر‘‘ کا تصور قائم کیا تھا کہ ذات باری تعالیٰ سراسر اچھائی اور حسن ہے۔افلاطون وجود کی دنیا سے آگے بڑھا اور اس نے الخیر کا سراغ لگانا چاہا لیکن سقراط کے صفاتی تصور پر کوئی اضافہ نہ کر سکا۔وہ روحانیت سے نکل کر مشاہدے اور احساسات کی دنیا میں تصور قائم کرنا چاہتا تھا، چنانچہ اس نے عقل اول اور عقل فعال کا تصور قائم کیا جو ایک ابدی اور تقسیم نہ ہونے والی ہستی کا تصور ہے۔سقراط نے جس ذات کی صفت ’’الخیر‘‘ میں دیکھی تھی ارسطو نے اسے ’’العقل‘‘ میں دیکھا اور اس مرحلے پر پہنچ کر رک گیا۔ اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ ’’الخیر‘‘ اور ’’العقل‘‘ یونانی فلسفے کے تصورِ الوہیت کا لُب لُباب ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں اسکندریہ کا فلسفۂ تصوف ’’مذہب افلاطون جدید‘‘ کے نام سے ظاہر ہوا۔اُس کی تعلیمات اور تصورات اپنشد والے تھے، یعنی حق تک رسائی کا اصل ذریعہ کشف و مشاہدہ ہے نہ کہ استدلال۔اور معرفت کا سب سے اونچا درجہ یہ ہے کہ جذب و فنا کا مقام حاصل ہو جائے۔دوسری طرف اس نے نفی صفات کا مسلک اختیار کیا اور کہا کہ ذات مطلق ہمارے تصورِ ادراک کی تمام تعبیروں سے بلند ہے، اس لیے ہم اس بارے میں کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ہم اسے وجودیت سے تعبیر کر سکتے ہیں، نہ جوہر (جو بذاتِ خود قائم ہو) سے۔ 7 مشرکین مکہ اور اہل عرب کا تصور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست مخاطب اہل مکہ اور عرب تھے۔یہ دین ابراہیمی کے دعویدار تھے۔ان کے
Flag Counter