Maktaba Wahhabi

36 - 315
5 عیسائی تصور عیسائی بھی اہل کتاب ہیں۔بعثت نبوی سے تقریباً چھ سو سال قبل اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔یہودیوں نے ان کے خلاف سازش کی اور انھیں سولی پر لٹکانے کا پروگرام بنایا جسے اللہ تعالیٰ نے ناکام بنا کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے انجیل نازل فرمائی جسے عہد نامہ جدید کہا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں تورات کو عہد نامہ قدیم کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے خالص توحید کا تصور پیش کیا لیکن ان کے اُٹھائے جانے کے بعد بہت جلد حقیقی توحید کا تصور ختم ہوگیا۔یہودیت میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں تصور یہ تھا کہ وہ قاہر اور جابر ہے۔جبکہ عیسائیت میں یہ تصور بالکل برعکس تھا، البتہ مشابہت کے معاملے میں دونوں برابر تھے۔عیسائیوں نے بھی یہودیوں کی طرح خالق کائنات کو تشبیہ کے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ جابر بادشاہ کی طرح قہر آلود تھا نہ غیرت میں ڈوبے ہوئے شوہر کی طرح سخت گیر بلکہ باپ کی محبت و شفقت کا مظہر تھا۔اس میں شک نہیں کہ یہودی تصور کی شدت کے مقابلے میں رحم و محبت کی حالت کا یہ تصور انقلابی تھا۔انسانی زندگی کے سارے رشتوں میں ماں باپ کا رشتہ سب سے بلند تر رشتہ ہے۔اولاد کوئی جرم کرے، ماں باپ بار بار ان کا قصور معاف کر دیں گے۔ ماں کی محبت خصوصاً بے مثال ہے، اس لیے اگر خدا کے تصور کے لیے انسانی رشتوں کی مشابہتوں سے کام لیے بغیر چارہ نہ ہوتا تو بلاشبہ شوہر کی مثال کے مقابلے میں باپ کی مشابہت کہیں زیادہ مناسب ہوتی۔اللہ تعالیٰ کے لیے مخلوق جیسا جسم ثابت کرنے اور اللہ کے بے عیب ہونے کے حوالے سے عیسائی تصور بھی ابتدا میں تقریباً وہی تھا جو تصور یہودی رکھتے تھے۔مگر یہ تصور جب رومی بت پرستی کے تصور سے ملا تو اقانیم ثلاثہ،[1] کفارہ[2] اور مسیح پرستی کے تصورات غالب آگئے۔اب عیسائیوں کو بت پرستوں کی بت پرستی سے تو انکار تھا لیکن خود اپنی بت پرستی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔میڈونا کے قدیمی بت کی جگہ اب ایک
Flag Counter