Maktaba Wahhabi

52 - 315
ہی اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی من گھڑت تفصیلات، من گھڑت مثالیں اور من گھڑت کیفیات بیان کرنا شروع کر دیں۔اثبات واجب ہے اور تشبیہ حرام ہے۔ تنزیہ اور تعطیل کا فرق: اسی طرح تنزیہ اور تعطیل میں فرق ہے۔تنزیہ کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک انسانی عقل کی پہنچ ہے، صفات الٰہی کو مخلوقات کی مشابہت سے پاک اور بلند رکھا جائے۔اور تعطیل کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی صفتوں میں مشابہت کی نفی کرتے ہوئے سرے سے صفات ہی کا انکار کر دیا جائے، اس طرح کہ فکر انسانی کے فہم کے لیے کوئی بات باقی نہ رہے۔قرآن کا تصور، تنزیہ کی تکمیل ہے، تعطیل کی ابتدا نہیں۔اپنشد کا تصورِ تنزیہ جس کا ذکر ہم کر آئے ہیں یہی تھا کہ وہ ایسا نہیں، ایسا بھی نہیں، اس کو اس قدر طول دیا گیا کہ سرے سے صفات الٰہی ہی کا انکار کر دیا گیا، پھر بالآخر ذات مُطْلَقْ (بَرْہمَان) کو ذات مُشَخَّصْ (اِیشوَر) میں اتار کر تسلی ہوئی، یعنی تنزیہ کے نام پر پہلے اس قدر مبالغہ کیا کہ تمام صفات کا انکار کیا اور پھر اسے مخلوق کی شکل میں مان لیا، اس لیے جس طرح صفتوں کو ماننے میں مبالغہ تشبیہ کی طرف لے جاتا ہے، اسی طرح صفتوں کو نہ ماننے میں مبالغہ تعطیل (صفات کے انکار) تک پہنچا دیتا ہے۔اور یہ دونوں تصور غلط ہیں۔اگر تشبیہ حقیقت سے ناآشنا کرتی ہے تو تعطیل اسے عقیدے کی روح سے محروم کر دیتی ہے، اس لیے اس بارے میں ضروری ہے کہ افراط و تفریط دونوں سے گریز کیا جائے اور تشبیہ اور تعطیل دونوں کے درمیان راہ نکالی جائے۔قرآن نے جو راہ اختیار کی ہے وہ دونوں راہوں کے درمیان اعتدال کی راہ ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا: اگر اللہ تعالیٰ کے تصور کے لیے صفات و افعال کی کوئی ایسی صورت باقی نہ رہے جو انسانی فکر کی گرفت میں آسکتی ہے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ یقینا یہی کہ تنزیہ کے معنی نفی وجود کے ہوجائیں گے، یعنی اگر کہا جائے: ہم اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ایجابی صفت (کہ وہ ایسا ہے) قرار نہیں دے سکتے کیونکہ جو صفت بھی قرار دیں گے، اس میں مخلوق کی مشابہت کی جھلک آجائے گی تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں انسان کسی ذات کا تصور ہی نہیں کر سکے گا اور جب تصور نہیں ہوگا تو ایسا عقیدہ اس کے اندر کوئی لگاؤ پیدا نہیں کر سکے گا۔ایسا تصور اگرچہ وجود ثابت کرنے کی کوشش کرے گا لیکن فی الحقیقت وہ نفی وجود کا باعث ہوگا۔گویا اس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کی نفی لازم آئے گی۔اللہ تعالیٰ کی ہستی کا اعتقاد انسانی فطرت کے
Flag Counter