Maktaba Wahhabi

62 - 315
رہا۔قرآن نے معاملات اور فہم میں رواداری کی تعلیم ضرور دی ہے، البتہ اعتقادی مفاہمتوں کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں۔سورۂ کافرون اس کی واضح دلیل ہے۔ قرآن نے تصور الٰہی کی بنیاد انسان کی فطرت پر رکھی ہے۔یہ نہیں کیا کہ اسے سمجھنے کے لیے بہت زیادہ تعلیم اور فلسفہ و منطق کی ضرورت ہو کہ اسے کسی خاص طبقے کا ذہین شخص ہی حاصل کر سکے۔انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ خوب سمجھتا ہے کہ کائنات خود بخود پیدا نہیں ہوئی، پیدا کی گئی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ کائنات کو بنانے والی ہستی موجود ہو۔قرآن نے معرفت الٰہی کے لیے ایسے ہی سادہ دلائل کا ذکر کیا ہے جسے عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔صرف غور و فکر اور کوشش کی ضرورت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ ’’اور جو لوگ ہم تک پہنچنے کے لیے کوشش کریں گے تو ہم بھی ضرور ان پر راہ کھول دیں گے اور یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘[1] نیز فرمایا: ﴿وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ (20) وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴾ ’’اور یقین کرنے والے لوگوں کے لیے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمھاری جانوں میں بھی، پھر کیا تم دیکھتے نہیں؟۔‘‘[2] فرق مراتب کا قرآنی تصور: قرآن نے مرتبوں کے فرق کی بنیاد انسان کی جدوجہد اور اخلاص پر رکھی ہے۔وہ حقیقت پر مبنی ایک ہی عقیدہ سب کے آگے پیش کرتا ہے لیکن طلب و کوشش اور فہم کے اعتبار سے مراتب یکساں نہیں ہوسکتے۔جو جس قدر زیادہ دلچسپی لے گا، اس کا یقین و ایمان اسی قدر زیادہ ہوگا۔اسے قرآن نے ایمان کے درجوں سے تعبیر کیا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی مشہور حدیث جو حدیث جبریل کے نام سے معروف ہے، اس میں جامع مانع انداز میں مراتب کا یہ فرق اس طرح عیاں کیا گیا ہے کہ ہر شخص عبادت صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہی کی کرے گا اس کے لیے مورتی یا بت کی ضرورت نہیں، البتہ یقین و ایمان کے اعتبار سے حسب محنت و طلب
Flag Counter