Maktaba Wahhabi

228 - 315
تقدیر کا انکار کفر ہے تقدیر کا مسئلہ زمانۂ قدیم ہی سے انسانوں کے مابین ایک نزاعی اور اختلافی مسئلہ چلا آرہا ہے اوراس بارے میں لوگ تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔دو گروہ تو افراط و تفریط میں مبتلا ہیں اورایک گروہ اعتدال پر قائم ہے۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے عموم کو دیکھا اور بندے کے اختیار سے آنکھیں بند کرلیں اورکہا کہ انسان اپنے افعال انجام دینے کے لیے مجبور ہے اوراسے قطعاً کوئی اختیار حاصل نہیں، لہٰذا انسان کا تیز آندھی یا طوفان کی وجہ سے چھت سے گرنا بالکل اسی طرح ہے جیسے اپنے اختیار سے وہ سیڑھی سے اترتا ہے۔اس عقیدے کے حامل لوگوں کو ’جبریہ‘ کہتے ہیں۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بندے کو اپنے افعال کے کرنے یا نہ کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اپنی آنکھیں یکسر بند کر لی ہیں، ایسے لوگ بلاتأمل یہ کہہ دیتے ہیں کہ انسان اپنے اعمال کی انجام دہی کے لیے کلی طور پر خود مختار ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس عقیدے اور نظریے کے پیروکاروں کو ’قدریہ‘ کہتے ہیں۔ راہ اعتدال پر قائم لوگوں نے دونوں اسباب کو دیکھا،چنانچہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے عموم کو بھی دیکھا اور بندے کے اختیار کو بھی دیکھا اور پھر کہا کہ بندے کا فعل پہلے اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کے بعد بندے کے اختیار (دونوں) سے وجود میں آتا ہے۔انسان کے چھت سے تیز آندھی یا طوفان کی وجہ سے گرنے اوراپنے اختیار سے سیڑھی سے اترنے میں نمایاں فرق ہے۔انسان کا پہلا فعل اس کے اپنے اختیار کے بغیر ہے جبکہ اس کا دوسرا فعل اس کے اپنے اختیار سے ہے اور یہ دونوں فعل اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر اور مشیت کے
Flag Counter