Maktaba Wahhabi

114 - 315
یاد رہے، توحید کی اس قسم کے بارے میں بھی مسلمانوں کے بہت سے گروہ گمراہ ہوگئے ہیں اور یہ گمراہ فرقے مختلف قسم کے ہیں، مثلاً: اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ’’ ﴿اَلْحَيُّ ﴾ ‘‘ کے نام کے ساتھ موسوم کیا ہے توجس طرح ہم پر یہ ایمان لانا واجب ہے کہ ’’ ﴿ اَلْحَيُّ ﴾ ‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے، اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ جس صفت پر یہ اسم پاک مشتمل ہے، ہم اس پر بھی ایمان لائیں اور وہ صفت، حیات کاملہ کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے نہ عدم تھا، نہ اس کے بعد فنا ہوگی، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا نام ’’ ﴿ سَمِيعٌ ﴾ ‘‘ بیان فرمایاہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھیں کہ ’’ ﴿ سَمِيعٌ ﴾ ‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک اسم پاک ہے اور سمع (سننا) اس کی صفات میں سے ایک صفت ہے، لہٰذا وہ سنتا ہے۔یہی اس اسم وصفت کا تقاضا ہے، سمع کے بغیر ’’ ﴿سَمِيعٌ ﴾ ‘‘ ہونا یا مسموع کا ادراک کیے بغیر سننا محال ہے، اسی طرح دیگر اسماء و صفات کو قیاس کر لیجیے۔ ایک اور مثال: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللّٰهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ﴾’’اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ (گردن سے) بندھا ہوا ہے، (یعنی اللہ بخیل ہے) انھی کے ہاتھ باندھے جائیں اور ایسا کہنے کے سبب ان پر لعنت ہو بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں، وہ جس طرح (اور جتنا) چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔‘‘[1] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ ﴾ ’’بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں‘‘ اس نے اپنی ذات پاک کے لیے دو ہاتھوں کا اثبات فرمایا ہے اور انھیں صفت’’بسط ‘‘ کے ساتھ موصوف قرار دیا ہے جس کے معنی بہت زیادہ عطا کرنے کے ہیں، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں جو عطا فرمانے اور نعمتوں کے ساتھ نوازنے کے لیے بہت کھلے ہیں۔اسی طرح ہم پر یہ بھی واجب ہے کہ ہم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا کوئی تصور نہ
Flag Counter