Maktaba Wahhabi

161 - 315
پر ہاتھ رکھ کر فرمایا قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِتو وہ مرغی زندہ ہوگئی۔[1] 2 ’’ایک گویے کی قبر پر پیران پیر نے قُمْ بِاِذْنِی کہا۔قبر پھٹی اور مردہ گاتا ہوا نکل آیا۔‘‘[2] 3 ابواسحق چشتی جب سفر کا ارادہ فرماتے تو دو سو آدمیوں کے ساتھ آنکھ بند کر کے فوراً منزل مقصود پر پہنچ جاتے۔[3] 4 ’’سید مودود چشتی کی وفات 97 سال کی عمر میں ہوئی۔آپ کی نمازِ جنازہ اول رجال الغیب (فوت شدہ بزرگوں) نے پڑھی، پھر عام آدمیوں نے، اس کے بعد جنازہ خودبخود اڑنے لگا۔اس کرامت سے بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیا۔‘‘[4] 5 ’’خواجہ عثمان ہارونی نے وضو کا دوگانہ ادا کیا اور ایک کمسن بچے کو گود میں لے کر آگ میں چلے گئے اور دو گھنٹے اس میں رہے۔آگ نے دونوں پر کوئی اثر نہ کیا۔اس پر بہت سے آتش پرست مسلمان ہوگئے۔‘‘[5] 6 ایک عورت خواجہ فریدالدین گنج شکر کے پاس روتی ہوئی آئی اور کہا: بادشاہ نے میرے بے گناہ بچے کو تختہ دار پر لٹکوا دیا ہے، چنانچہ آپ اپنے اصحاب سمیت وہاں پہنچے اور کہا: الٰہی!اگر یہ بے گناہ ہے تو اسے زندہ کر دے۔لڑکا زندہ ہوگیا اور ساتھ چلنے لگا۔یہ کرامت دیکھ کر (ایک) ہزار ہندو مسلمان ہوگئے۔[6] 7 ایک شخص نے بارگاہ غوثیہ میں لڑکے کی درخواست کی۔آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی، اتفاق سے لڑکی پیدا ہوگئی۔آپ نے فرمایا: اسے گھر لے جاؤ اور قدرت کا کرشمہ دیکھو، جب گھر آیا تو اسے لڑکی کی بجائے لڑکا پایا۔[7] 8 پیران پیر غوث اعظم مدینہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد آرہے تھے۔راستے میں ایک چور ملا جو لوٹنا چاہتا تھا۔جب چور کو علم ہوا کہ آپ غوث اعظم ہیں تو قدموں پر گر پڑا اور زبان پر ’’ یَا سَیِّدِیْ عَبْدُالقادر شَیْئًا لِلّٰہِ ‘‘ جاری ہوگیا۔آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا۔اس کی اصلاح کے لیے بارگاہ الٰہی میں متوجہ ہوئے، غیب سے ندا آئی: چور کو ہدایت کی رہنمائی کرتے ہو، قطب بنا دو، چنانچہ آپ کی اک نگاہ فیض سے وہ قطب کے درجہ پر فائز ہوگیا۔[8]
Flag Counter