Maktaba Wahhabi

197 - 315
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی شفاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا جس سے کوئی حد ساقط ہوتی ہو، تاہم عام اور معمولی جرائم میں سفارش کی جاسکتی ہے بشرطیکہ جرم کرنے والا معافی کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر عادی مجرم نہ بن جائے۔ شفاعت کا تعلق اگر آخرت کے معاملے سے ہو تو اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یہودی، عیسائی اور مشرکین مکہ، تینوں گروہ کسی نہ کسی صورت میں شفاعت کے قائل تھے۔ یہودی اپنے آپ کو اللہ کا بیٹا تصور کرتے تھے اور انھیں اپنے مقام و مرتبے اور جاہ و حشمت پر بڑا ناز تھا۔وہ یہ کہتے تھے کہ ہم خود اللہ کے اتنے قریب ہیں کہ ہمیں کسی کی سفارش کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ان کے بقول جنت اور جہنم کا فیصلہ بھی ان کی منشا کے مطابق کیا جائے گا۔ عیسائیوں کا نظریہ یہ تھا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، نعوذ باللہ، سولی پر چڑھ کر ہم سب کے گناہوں کا کفارہ ادا کر چکے ہیں اور روز قیامت بھی وہ ازخود ہماری طرف سے تمام معاملات حل کر لیں گے کیونکہ اللہ کے حضور وہ ہماری سفارش کر چکے ہیں۔ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے تھے، ان کے بارے میں ان کا اعتقاد یہ تھا کہ یہ ہمیں مصائب سے بچانے اور خیر سے نوازنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ہمیں دنیا میں بس انھی کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے، اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے بجائے ان بتوں کے نام کی نذر و نیاز دیتے اور انھی پر چڑھاوے چڑھاتے تھے۔علاوہ ازیں وہ یہ بھی اعتقاد رکھتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور انھی کی سفارش پر ہمیں روزی ملتی ہے، اس لیے انھوں نے فرشتوں کے نام پر بھی پتھر کی مورتیاں بنا رکھی تھیں اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بت اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے اور مقرب ہیں ان کی تعظیم بجا لانے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ہندومت میں بھی دیوتاؤں کے بارے میں یہی تصور رائج چلا آرہا ہے۔ شفاعت کے انھی فاسد تصورات نے لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت سے خالی کر کے
Flag Counter