Maktaba Wahhabi

205 - 315
’’اور (اے نبی!) جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے تو چاہیے (لازم ہے) کہ وہ بھی میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔‘‘[1] اسلام نے قربت کے وہ ذرائع اور وسائل اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جو حقیقی معنوں میں انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ سے ڈرو اور (خود) اس کا قرب تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘[2] اس آیت میں وارد لفظ ’’وسیلہ‘‘ کا ایک مفہوم یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان وسیلہ سمجھ کر پکارنا، اس سے سفارش کا طالب ہونا، اس پر توکل اور بھروسا کرنا۔لوگوں کی اکثریت اسی عقیدے کی حامل ہے۔ وسیلے کا دوسرا مفہوم وہ ہے جو قرآن و سنت، صحابہ و تابعین اور مفسرین سے مروی ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ’’الوسیلہ‘‘ کے معنی یوں بیان کرتے ہیں: أی القربۃ، یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرو۔امام مجاہد، عطا، ابو وائل، حسن بصری، قتادہ، عبداللہ بن کثیر، سدی اور ابن زید رحمہم اللہ سے بھی یہی معنی مروی ہیں۔امام قتادہ فرماتے ہیں: أی تَقْرَبُوا إِلَیْہِ بِطَاعَتِہِ وَالْعَمَلِ بِمَا یُرْضِیہ، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے پسندیدہ اعمال کے ذریعے سے اس کا قرب تلاش کرو۔[3] امام آلوسی اور بعض دیگر مفسرین نے اس کے معنی ’’حاجت‘‘ کیے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات کا سوال کرو کیونکہ ضرورتیں پوری کرنے والا وہ یکتا ہے۔امام ابن جریر رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ایسے اعمال کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرو، جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔کسی صحابی، تابعی یا مفسر نے الوسیلہ کے معنی نبی یا بزرگ کی ذات نہیں کیے۔
Flag Counter