اس طرح پڑا ہو کہ اس پر بیٹھنا ممکن نہ ہو تو ہم کہیں گے کہ یہ ویسے ہی یہاں پڑا ہے، بالکل اسی طرح کائنات کی ہر چیز، جیسے چاند، سورج، زمین، دن، رات، بارش، پانی، ہوائیں، حیوانات و نباتات، نیز موسم و ماحول کی ترکیب اور اس کا مفید ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اسے کسی بنانے والے نے بنایا ہے اور وہ یقینا اللہ تعالیٰ کی ذات عالی ہے۔
اگر اس میں ذرہ بھر خلل آجائے یا اس کی تخلیق کی موجودہ ہیئت نہ ہو تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے اور یہ موافقت خود کار نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ (37) وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (38) وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ (39) لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴾
’’اور ان کے لیے ایک عظیم نشانی رات ہے، ہم اس سے دن کو کھینچ نکالتے ہیں، پھر (دن ختم ہونے پر) یکایک وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔اور سورج اپنے ٹھکانے(پر پہنچنے) کے لیے رواں دواں رہتا ہے، یہ نہایت غالب، خوب جاننے والے (اللہ) کا مقرر کیا ہوا نظام ہے۔اور چاند کی ہم نے (اٹھائیس) منزلیں مقرر کر رکھی ہیں حتی کہ وہ کھجور کے خوشے کی پرانی ٹیڑھی ڈنڈی کی طرح ہوجاتا ہے۔نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پالے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے اور ہر ایک (اپنے اپنے) مدار میں تیرتا پھرتا ہے۔‘‘[1]
نیز فرمایا: ﴿أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا (6) وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا ﴾
’’کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا؟‘‘[2]
مسلمان، کافر، ملحدین، مشرکین اور دہریے وغیرہ تمام دو باتوں پر متفق ہیں:
1 کائنات کی ہر چیز انسان سے موافقت رکھتی ہے اور ایک دوسرے کے بھی موافق اور مربوط ہے۔
2 جو چیز ہر لحاظ سے ایک دوسرے کے موافق ہو وہ کسی ایک ہی کا فعل ہوسکتا ہے اور اس کا مقصد بھی ایک
|