Maktaba Wahhabi

53 - 315
اندرونی تقاضوں کا جواب ہے۔اور یہ تقاضے کسی تصور کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے اور تصور تب ہی سامنے آئے گا جب ہم ایجابی صفات کا اقرار کریں، تاہم اس حقیقت کی کوئی مثال بیان نہیں کی جاسکتی۔ صفات کے تصور کے بغیر انسان کی پیاس نہیں بجھتی۔اسے ایسے محبوب کی طلب ہوتی ہے جس تک اس کی رسائی ہوسکے، جس کی محبت میں اس کا دل اٹک سکے، جس کے ذکر و تصور سے اس کا بے قرار دل چین پکڑ سکے، جس کا دامن کبریائی تھامنے کے لیے وہ ہمیشہ دست عجز و نیاز بڑھاتا رہے، جو اگرچہ زیادہ سے زیادہ بلندی پر ہو مگر پھر بھی اسے ہر دم دیکھ رہا ہو، یعنی وہی جو قرآن نے کہا: ﴿ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ ﴾’’یقینا تمھارا رب گھات (تاک) میں ہے۔‘‘[1] اور فرمایا: ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾ ’’اور (اے نبی!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو یقینا میں بہت قریب ہوں۔جب بھی وہ مجھ سے دعا کرتا ہے، میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔‘‘[2] رب ذوالجلال کے غیر صفاتی تصور سے انسانی طلب کی پیاس نہیں بجھ سکتی۔اللہ تعالیٰ کی صفات سے انکار پر مبنی تصور ایک فلسفیانہ خیال تو پیدا کر سکتا ہے لیکن دلوں کا زندہ اور سرگرم عقیدہ نہیں بن سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جو راہ اختیار کی ہے وہ ایک طرف تو اثبات و تنزیہ کو اس کے اعلیٰ درجے تک پہنچا دیتی ہے، دوسری طرف تصور کو تشبیہ و تعطیل سے بھی بچا لے جاتی ہے۔وہ فرداً فرداً تمام صفات و افعال کا اثبات کرتا ہے مگر ساتھ ہی مشابہت کی قطعی نفی بھی کرتا ہے۔وہ کہتا ہے: اللہ حسن و خوبی کی ان تمام صفات سے جو انسانی فکر میں آسکتی ہیں، متصف ہے، وہ زندہ ہے، قدرت والا ہے، پالنے والا ہے، رحمت والا ہے، دیکھنے والا ہے، سننے والا ہے، سب کچھ جاننے والا ہے، پھر اتنا ہی نہیں بلکہ انسان کی بول چال میں قدرت و اختیار، ارادے اور عمل کی جتنی بھلی تعبیریں ہیں انھیں بھی اپنے لیے بے تکلف استعمال کرتا ہے، مثلاً: اللہ کے ہاتھ تنگ نہیں ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ ﴾’’بلکہ اس کے ہاتھ کھلے ہیں۔‘‘ گویا اس کے ہاتھ ہیں لیکن وہ ایسے ہیں جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔جو ہمارے تصور میں نہیں آسکتے۔
Flag Counter