Maktaba Wahhabi

55 - 315
بانی تھے، انھوں نے اگرچہ اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا لیکن ان کے پیروکار اس مبالغے کی حد تک چلے گئے کہ ان میں سے کوئی بھی معاملے کی گتھی نہ سلجھا سکا، اگر گتھی سلجھی تو اسی طریقے سے سلجھی جو قرآن نے اختیار کیا تھا۔امام جوینی رحمہ اللہ یہ اقرار کرتے ہوئے دنیا سے گئے: (وَھَا أَنَا أَمُوتُ عَلٰی عَقِیدَۃِ أُمّیِ ()) ’’میری ماں نے جو عقیدہ سکھلایا تھا میں اس پر دنیا سے جارہا ہوں۔‘‘[1] امام فخرالدین رازی اس گروہ کے سرخیل تھے لیکن آخر کار اپنی زندگی کی آخری تصنیف میں انھیں بھی اقرار کرنا پڑا کہ اس مسئلے میں قرآن ہی کافی ہے۔لکھتے ہیں: ((لَقَدْ تَأَمَّلْتُ الطُرُقَ الْکَلَامِیَۃَ وَالْمَنَاھِجَ الْفَلْسَفِیَّۃَ، فَمَارَ أَیْتُھَا تَشْفِی عَلِیلًا وَلَا تَرْوِی غَلِیلًا وَرَأَیْتُ أَقْرَبَ الطُّرُقِ طَرِیقَ الْقُرْآنِ، اِقْرَأْ فِی الإِْثْبَاتِ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ﴾ وِفِی النَّفْیِ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ﴾ وَمَنْ جَرَّبَ مِثْلَ تَجْرِبَتِی، عَرَفَ مِثْلَ مَعْرِفَتِی)) ’’میں نے علم کلام اور فلسفے کے تمام طریقوں پر خوب غور کیا لیکن بالآخر معلوم ہوا کہ نہ تو ان میں کسی بیمار کے لیے شفا ہے، نہ کسی پیاسے کے لیے سیرابی۔سب سے بہتر اور حقیقت سے نزدیک تر راہ وہی ہے جو قرآن کی راہ ہے۔اثبات صفات میں ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ﴾ پڑھو اور نفی تشبیہ میں ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ ﴾ پڑھو، یعنی اثبات اور نفی دونوں کا دامن تھامے رہو۔اور جس کسی کو میری طرح اس معاملے کے تجربے کا موقع ملا ہوگا، اسے میری طرح یہ حقیقت معلوم ہوگئی ہوگی۔‘‘[2] یہی وجہ ہے اصحاب حدیث اور سلف صالحین نے اس باب میں تفویض، یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے ظاہری معنی پر ایمان لانا اور اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے کا مسلک اختیار کیا۔اور وہ صفات
Flag Counter