Maktaba Wahhabi

303 - 315
’’تم یوں نہ کہو: جو اللہ تعالیٰ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہو جو اللہ تعالیٰ چاہے، پھر فلاں چاہے۔‘‘ [1] دونوں جملوں میں ایک فرق ہے پہلے جملے کا یہ مطلب بنتا ہے کہ گویا اللہ کا ارادہ اور اُس فلاں کا ارادہ دونوں مل کر کائنات کا نظام چلا رہے ہیں گویا یہ شرک ہے۔دوسرے جملے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ پوری کائنات میں صرف اللہ کا ارادہ ہی رواں دواں ہے۔بندہ ہمیشہ اُسی بات کا ارادہ کرتا ہے جو پہلے سے اس کے مقدر میں اللہ نے لکھی ہوتی ہے مگر اسے معلوم نہیں ہوتی۔گویا خالق کا ارادہ پہلے ہوتا ہے اور بندے کا ارادہ اس کے بعد ہوتا ہے اور اس کے تابع ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلا جملہ شرکیہ ہے اور دوسرا شرکیہ نہیں ہے۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ یہ کہنا نہایت مکروہ سمجھتے تھے کہ ((أَعُوذُ بِاللّٰہِ وَبِكَ)) ’’میں اللہ تعالیٰ کی اور تمھاری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ البتہ ((أَعُوذُبِاللّٰہِ ثُمَّ بِكَ)) کہنا جائز ہے، یعنی میں پہلے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں، پھر اس کے بعد تمھاری پناہ میں آتا ہوں۔اسی طرح ((لَوْلَا اللّٰہُ ثُمَّ فُلَانُ)) ’’اگر اللہ تعالیٰ، پھر فلاں نہ ہوتا …‘‘ کہہ سکتے ہیں۔لیکن ((لَوْلَا اللّٰہُ فُلَانُ)) ’’اگر اللہ تعالیٰ اور فلاں نہ ہوتا…‘‘ کہنا ناجائز ہے۔[2] سیدنا عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں بنو عامر کے ایک وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ’’سید‘‘ ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلسَّیِّدُ اللّٰہُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی)) ’’السید تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘ پھر ہم نے کہا: مقام و مرتبے کے لحاظ سے آپ ہم سب سے برتر، افضل اور بہت زیادہ احسان فرمانے والے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((قُولُوا بِقَوْلِکُمْ أَوْ بَعْضِ قَوْلِکُمْ وَلَا یَسْتَجْرِیَنَّکُمُ الشَّیْطَانُ)) ’’تم یہ اور اس قسم کی جائز اور مناسب بات تو کہہ سکتے ہو۔(تاہم) خیال رکھنا، مبادا شیطان تمھیں اپنے جال میں گھسیٹ لے۔‘‘[3]
Flag Counter