Maktaba Wahhabi

20 - 315
کسی زمانہ میں آگ کی پرستش نے زور پکڑ لیا لیکن خالق یکتا کا تصور بہرصورت کسی نہ کسی طرح موجود رہا۔ ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں چوتھا تصور یہود کا تھا۔یہود اگرچہ اصلاً اہل کتاب تھے اور اُن کی کتاب کی تعلیمات آسمانی تھیں۔سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر آسمانی کتاب ’’تورات‘‘ نازل ہوئی اور انھیں بنی اسرائیل میں نبی اور رسول مبعوث کیا گیا، اس لیے اللہ تعالیٰ کی توحید کا تصور بدیہی بات تھی لیکن رفتہ رفتہ اصل حقائق سے دور ہونے کی وجہ سے ان کی توحید عملاً شرک کا مظہر ہوگئی تھی، تاہم اللہ تعالیٰ کی ذات کا تصور اس میں موجود تھا۔یہود کہتے تھے کہ ہم ہی اللہ کے محبوب، چہیتے اور نعوذباللہ بیٹے ہیں، باقی سب انسان جانوروں کی طرح ہیں۔ پانچواں تصور عیسائیت کا ہے۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی شریعت کی تجدید اور بنی اسرائیل، یعنی یہود کی خرابیوں کی اصلاح کے لیے تشریف لائے تھے۔لیکن یہودیوں کے علاوہ ان کی اپنی ایک امتیازی پہچان تھی۔عیسائیت نے اگرچہ اپنے عقائد میں بگاڑ پیدا کر لیے لیکن خالق کائنات کے وجود کا تصور ان کے ہاں بھی موجود تھا۔ ایک فلسفہ یونان کا ہے، یونانی تہذیب بھی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔یہاں اگرچہ باقاعدہ کوئی مذہب نہیں تھا۔لیکن دنیا پر یونان کے فلسفے نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ہر چند یہاں سیکڑوں دیوتاؤں کا راج رہا لیکن بالآخر ایک رب الأرباب کا تصور یہاں بھی تسلیم کر لیا گیا۔ آخری تصور جس کا اس باب میں ذکر ہے، وہ قرآن کا تصور توحید ہے۔قرآن کے براہ راست مخاطب مشرکین مکہ اور عرب تھے۔وہ وجود باری تعالیٰ کے قائل تھے۔لیکن مذکورہ تہذیبوں کی طرح انھوں نے بھی ذاتِ باری تعالیٰ میں شراکت کی راہیں نکال لی تھیں۔ قرآن نے خالص توحید کا تصور پیش کیا۔مذکورہ تہذیبوں میں جو، اگرچہ وجود باری تعالیٰ کی قائل تھیں، خرابیاں موجود تھیں۔قرآن نے ان کا نہ صرف رد کیا بلکہ ذات باری تعالیٰ کا پاک صاف توحیدی تصور پیش کیا۔قدیم تہذیبوں اور مذاہب میں معرفت الٰہی کے حوالے سے گمراہی کے دو پہلو تھے۔بعض وجود باری تعالیٰ کو ثابت کرتے کرتے تمثیل کی دلدل میں پھنس گئے حتی کہ ہر چیز میں وجود باری تعالیٰ کا تصور قائم کر لیا۔قرآن
Flag Counter