Maktaba Wahhabi

21 - 315
نے اس تصور کا رد کر کے یہ بتایا کہ ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴾ ’’اس کی مثل کوئی نہیں۔‘‘[1] یعنی تم اسے کسی چیز کے مشابہ نہیں ٹھہرا سکتے، نیز فرمایا: ﴿لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴾ ’’انسان کی نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں لیکن وہ انسان کی نگاہوں کو دیکھ رہا ہے اور بڑا ہی باریک بین اور باخبر ہے۔‘‘[2] دوسری خرابی یہ پیدا ہوگئی تھی کہ بعض مذاہب والوں نے تمثیل کا اس انداز میں رد کیا کہ تنزیہ، یعنی اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی تشبیہ سے پاک قرار دیتے دیتے وجود باری تعالیٰ یا بعض صفات ہی کا انکار کر بیٹھے۔قرآن نے ذاتِ باری تعالیٰ کے وجود کو اس کی شایانِ شان اعلیٰ ثابت کیا اور تمثیل کی نفی کر کے نہایت اعلیٰ تعارف پیش کیا۔اسی طرح صفات باری تعالیٰ کا اثبات کیا۔اس کے قہر و غضب کے ساتھ ساتھ رحمت و لطف اور صفات جمال کا وہ خوبصورت تصور پیش کیا، جس کی مثال سابقہ مذاہب میں ملنا ناممکن ہے۔ پھر معرفت الٰہی کے عقلی دلائل ذکر کر کے ان لوگوں پر حجت قائم کی گئی ہے جو آسمانی مذاہب اور دلائل کے قائل نہیں۔اس کے لیے سب سے پہلے فطرت انسانی اور وجدان کو بطور دلیل پیش کیا گیا۔بتایا گیا ہے کہ وجود باری تعالیٰ کے سیکڑوں دلائل اگر کوئی تسلیم نہ کرے تب بھی اپنے ضمیر کی آواز سے فرار ممکن نہیں۔فطرت کی آواز اور وجدان انسان کو یہ ماننے پر مجبور کرتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی اکیلا خالق اور مدبر ہے اور وہ یقینا اللہ تعالیٰ ہے۔اس کے علاوہ تکوینی امور، کائنات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، چیزوں کی شکل و صورت اور اس جیسے بہت سے عقلی دلائل کے ذریعے توحید باری تعالیٰ کا اثبات کیا گیا ہے۔ اسلام نے جو تصور توحید پیش کیا اس کی حقیقت و اصلیت، تفصیلات و جزئیات، معانی و مطالب، فضیلت و اہمیت اور اقسام، نیز اس میں بگاڑ کی صورتیں، یہ سب امور اگلے صفحات میں تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔
Flag Counter