Maktaba Wahhabi

193 - 315
غیروں کی چوکھٹ پر جا پڑے۔پھر شفاعت اور وسیلے کے نام پر توحید باری تعالیٰ میں جس چیز نے بہت بڑا رخنہ ڈالا وہ علم غیب کا مسئلہ ہے۔حالانکہ جملہ امورِ غیب کو جاننا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی خصوصیت ہے۔کسی نبی، ولی یا فرشتے کو کسی غیبی بات کا اسی وقت علم ہو سکتا ہے، جب اللہ تعالیٰ اسے بتائے اور جو اللہ نے بتا دیا وہ علم میں آگیا اور غیب نہ رہا، اس لیے وحی الٰہی کے ذریعے سے کسی غیبی چیز کی خبر کا معلوم ہو جانا غیب کے زمرے میں نہیں آتا۔اس مسئلے میں وارد شکوک و شبہات کا بھی ازالہ کر دیا گیا ہے۔اسی طرح تقدیر پر ایمان، دین حنیف کی بنیادی شرط ہے۔مسلمانوں میں فکری گمراہی تقدیر کی راہ سے آئی۔تقدیر پر شکوک و شبہات اس کا اصل سبب بنا۔بعض لوگوں نے تقدیر کا سرے سے انکار کیا۔انسان کو مختار کل کا درجہ دے دیا۔اس کے برعکس دوسرے کچھ لوگوں نے تقدیر کا سہارا لے کر گناہوں حتی کہ قتل تک کو جائز ٹھہرایا۔یہ دونوں صورتیں توحید کے منافی ہیں۔اس باب میں اس راہ کی گمراہیوں کو عیاں کر کے تقدیر پر ایمان کی صحیح صورت اُجاگر کی گئی ہے۔مختارِ کل تنہا اللہ تعالیٰ کی ذات عالی ہے۔وہ جو چاہے کرتا ہے، اس کی مرضی کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔اس مسلمہ حقیقت سے بھی لوگ دور ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے سوا انبیاء و رسل وغیرہ کو بھی مختارِ کل مان بیٹھے۔اس باب میں اس غلط عقیدے کا مدلل رد کیا گیا ہے۔ اپنے تمام معاملات و مسائل کے حل کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لاکر بھرپور جدوجہد کرنا اور نتائج اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا اور صرف اسی پر بھروسا کرنا اہل علم کا طرۂ امتیاز رہا۔اس سے ہٹ کر کوئی اور فکر و عمل توحید کے منافی ہے۔اس بات کی بخوبی وضاحت کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنے کی طرح غیراللہ سے فریاد کرنا کفر ہے۔اسباب کے بغیر عطا کرنا قادر مطلق رب ذوالجلال ہی کے دستِ قدرت میں ہے۔اگر کوئی شخص اسباب اختیار کیے بغیر کسی کو غائبانہ طور پر پکارتا ہے اور اُسے مشکل کشا سمجھتا ہے تو وہ راہ مستقیم سے ہٹا ہوا ہے، مثلاً: بیماری کے علاج کے لیے کوئی شخص دوا دارو کرتا ہے یا اللہ کے کسی نیک بندے سے دم کراتا ہے تو یہ ایک صحیح اور جائز عمل ہے جس پر کوئی قدغن نہیں لیکن اللہ رب العزت کی بجائے کسی فرد سے دعا کرنا، مثلاً: یوں کہنا اے پیر دستگیر!مجھے شفا دے دے۔یہ صریحاً کفر ہے اور توحید کے یکسر منافی ہے۔
Flag Counter