سب سے پہلے سیدنا نوح علیہ السلام کی قوم میں شرک پیدا ہوا جس کا سبب نیک لوگوں کی محبت میں غلو اور اپنے پیغمبر کی دعوت سے اعراض تھا۔جب سیدنا نوح علیہ السلام نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی تو انھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا:
﴿لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ﴾
’’تم ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور ہرگز نہ تم وَد کو اور نہ سُواع کو اور نہ یَغُوث و یَعُوق کو اور نہ نَسْر کو چھوڑنا۔‘‘[1]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ مذکورہ پانچوں نام، قوم نوح کے پانچ نیک لوگوں کے تھے۔جب یہ نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن مقامات پر یہ نیک لوگ تشریف فرما ہوتے تھے، وہاں ان کی مورتیاں اور مجسمے بنا لو اور ان کا نام انھی بزرگوں اور نیک لوگوں کے نام پر رکھ لو، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا لیکن انھوں نے یہ کام محض ان کی یاد تازہ رکھنے کے لیے کیا تھا۔انھوں نے ان کی عبادت نہیں کی، البتہ جب ایک نسل ختم ہوگئی تو پھر بعد میں آنے والوں نے ان مجسموں کی عبادت شروع کر دی۔
اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ قوم نوح کے یہ پانچوں بت عرب میں بھی پوجے جاتے تھے، چنانچہ وَدّ، دومۃ الجندل میں قبیلۂ کلب کا بت تھا۔سواع، قبیلۂ بنو ہذیل کا بت تھا۔یغوث، مراد قبیلے کی شاخ بنو غطیف کا بت تھا جو وادیٔ جرف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے۔یعوق قبیلۂ بنو ہمدان کا بت تھا اور نسر کی قومِ حمیر عبادت کرتی تھی جو ذوالکلاع کی اولاد سے تھے۔[2]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ اثر جو مرفوع کے حکم میں ہے اس سے یہ واضح ہوا کہ قوم نوح میں شرک کا آغاز نیک لوگوں کی محبت میں غلو کی وجہ سے ہوا۔اس محبت میں غلو نے پہلے ان سے ان کی تصویریں اور مجسمے تیار کروائے، پھر ان کو اپنی بیٹھکوں میں اور دیواروں پر نصب کروایا اور پھر یہی مجسمے قابل تعظیم اور قابل عبادت قرار پا گئے۔
|