یا فضلہ کو خارج کرنے کا کام کرتی ہے اور جس طرح انسان کھانے پینے پر مجبور ہو جاتا ہے اسی طرح رفع حاجت پر بھی مجبور ہو جاتا ہے اور اگر روکے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔
دل کہنے کو تو ایک قسم کا پمپ ہے جس کا کام الفاظ میں تو بہت معمولی سا لگتا ہے، یعنی ایک طرف سے خون لے کر دوسرے راستے سے جسم کے مختلف حصوں میں روانہ کردینا۔مگر یہ تخلیق کا ایک ایسا عجوبہ ہے کہ آج تک کوئی مشین اس مختصر سائز میں وہ سارے کام نہ کر سکی اور نہ کر سکے گی جو دل کرتا ہے۔دل میں بیک وقت 140 مکعب سینٹی میٹر خون سما سکتا ہے۔اس میں چار خانے ہوتے ہیں جن میں خون کی آمد و رفت کے لیے دائیں اور بائیں حصوں کے درمیان بھی سوراخ ہوتے ہیں۔ان سوراخوں میں ایسے والو لگے ہوتے ہیں جو خون کی یک طرفہ آمد و رفت کا بندوبست کرتے ہیں۔دورانِ خون کی ابتدا میں شریانوں کے ذریعے سے ناخالص خون پھیپھڑوں میں داخل ہوتا ہے اور وہاں وہ گردش کرتا ہوا پھیپھڑوں میں عروقِ شعریہ کے درمیان سے جب گزرتا ہے تو سانس کے ساتھ وہاں آئی ہوئی آکسیجن کے ذریعے سے صاف ہو جاتا ہے اور یہ صاف خون پھر ایک ورید (رگ) کے ذریعے سے دل میں داخل ہو جاتا ہے، جہاں سے شریانِ اعظم کی شاخوں کے ذریعے سے جسم کے تمام حصوں میں جاپہنچتا ہے۔انسانی جسم میں خون کی نالیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر اُن تمام کو لمبائی میں رکھ کر ان پر سفر کیا جائے تو فاصلہ تقریباً 72 ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔نبض کی حرکت بھی دل کی دھڑکن کے مطابق ہوتی ہے۔ایک منٹ میں دل اوسطًا 72 مرتبہ دھڑکتا ہے مگر جسمانی مشقت اور بخار وغیرہ میں دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے، اسی لیے نبض کی رفتار بھی بڑھ جاتی ہے۔
گردے دیکھنے کو تو ایک معمولی سی چیز معلوم ہوتے ہیں مگر یہ بھی قادرِ مطلق علیم و حکیم کی کاریگری کا لافانی شاہکار ہیں۔ان کی کارکردگی کا مظاہرہ رب کریم کے کمالات و عجائبات میں سرفہرست ہے۔گو آج کل انسان نے اللہ کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کے ذریعے سے تحقیق کر کے باکمال مصنوعی گردہ بنانے میں قدرے کامیابی حاصل کی ہے۔مگر یہ محض جز وقتی کارکردگی کے قابل ہیں جو حقیقی گردے کے مقابلے میں ’’سورج کو چراغ دکھانے‘‘ کے مصداق ہے۔بہرحال گردوں کی جوڑی جو شکم (پیٹ) کے اندر ریڑھ کی ہڈی کے دائیں بائیں ہوتی ہے، ان میں 13 سو مکعب سینٹی میٹر خون فی منٹ کے حساب سے گردش کرتا
|