Maktaba Wahhabi

75 - 315
’’اور (خود) تمھاری ذات میں بھی (بہت سی نشانیاں ہیں)، کیا پھر تم دیکھتے نہیں ہو؟‘‘[1] اب اگر غور کیا جائے اور انسان پر نظر دوڑائی جائے تو اس کا ایک ایک پور پکار پکار کر اللہ تعالیٰ کے وجود کی گواہی دے رہا ہے۔انسان کے اندر جو عصبی مواصلاتی نظام (Nervous System) موجود ہے، وہ دنیا کے کسی بھی نظام سے کہیں زیادہ مکمل اور پیچیدہ ہے۔اس میں ہر وقت کروڑوں معلومات دوڑتی رہتی ہیں۔زبان کے تین ہزار خلیے اس نظام کے ذریعے سے دماغ تک ذائقے کے بارے میں معلومات پہنچاتے ہیں۔کان میں ایک لاکھ خلیے ایک پیچیدہ عمل کے ذریعے سے ہمارے دماغ تک آواز پہنچاتے ہیں۔ہر آنکھ میں تیرہ کروڑ متحرک خلیے ہیں جو ہر آن دماغ تک زندہ تصویر پہنچاتے ہیں۔اس عصبی نظام کا ایک حصہ حرکت پیدا کرتا ہے اور دوسرا حصہ اس کو روکتا ہے، جب حرکت تیز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو پہلے حصے کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے اور جب حرکت کم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسرا حصہ غالب آ جاتا ہے۔انسانی دماغ کے اندر ایک ارب خلیے ہوتے ہیں۔ان سے کروڑوں تار سارے بدن میں خبریں لانے اور لے جانے کا کام کرتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ دماغ کے اندر تمام معلومات کا تجزیہ کرنے، انھیں مربوط کرنے، ذخیرہ کرنے، ان سے نئے نئے نتائج نکالنے اور ان کی بنیاد پر نئے تجربات کرنے کی بے پناہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ انسان کا معدہ ایک فیکٹری کی طرح دن رات کام میں لگا رہتا ہے۔جو غذا کو پیس کر اس میں ہضم کرنے والے مادے (انزائمر وغیرہ) ملا کر اسے ایسی صورت عطا کرنے میں لگا رہتا ہے جس سے جسم کے ہر حصے کی غذا اس حصے تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رہ سکے۔جب یہ فارغ ہو جائے تو اور غذا طلب کرتا ہے جسے ہم بھوک کہتے ہیں، اس ملغوبہ کی تیاری میں اگر پانی کی کمی ہو تو ہمیں پیاس لگ جاتی ہے اور ہم پانی پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، پھر اس کے اندر چھلنی بھی ہے جس سے چھن کر یہ ملغوبہ جگر میں چلا جاتا ہے جہاں اچھالنے والی، دفع کرنے والی، صاف کرنے والی، کھینچنے والی مشینیں اور قوتیں کام کر رہی ہیں۔یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں۔گردے فالتو پانی پیشاب کے راستے سے خارج کر دیتے ہیں۔قوت دافعہ فالتو مواد
Flag Counter