Maktaba Wahhabi

68 - 315
زندگی کی گردشوں کے بعد لوگوں پر گردِ جہالت جمی تو وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگے۔اللہ کے شریک ٹھہرانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتے تھے۔ سورۂ نمل (کی آیت 60 تا 66) میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات عالی کے اثبات کے جو دلائل بیان فرمائے ہیں، وہ اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ کفار بھی وجود باری تعالیٰ کے قائل تھے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((إِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلّٰهُ مْ وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ)) ’’بلاشبہ میں نے اپنے بندوں کو اس حالت میں پیدا کیا کہ وہ سب کے سب ایک اللہ کی عبادت پر یکسو تھے، پھر ان کے پاس شیاطین آئے تو انھوں نے لوگوں کو ان کے دین (توحید) سے ہٹا دیا۔‘‘[1] شیخ محمد عبدہٗ رحمہ اللہ سورۂ عبس کی آیت ﴿كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ ﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو اس لیے نہیں بھیجا کہ وہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کی معرفت پیدا کریں بلکہ انھیں نصیحت اور یاددہانی کے لیے بھیجا ہے اور نصیحت غافل انسان کو کی جاتی ہے، یعنی لوگوں کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی معرفت اور خالق کا تصور موجود ہے لیکن وہ دھندلا چکا ہے، اسی کی یاد دہانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، لہٰذا انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کی مخالفت کرنے والا درحقیقت خود اپنے ضمیر کو دھوکا دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور رسولوں کی ذمہ داری دعوت اور ابلاغ ہے۔ ﴿ قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ﴾ کہہ کر اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور توحید جبلت اور طبیعت میں پیوست ہے، انسان خواہش پرستی کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں اور انھیں بہت زور لگا کر اپنی فطرت کے برعکس اس (معرفت) کا انکار کرنا پڑتا ہے۔کفر اور انکار کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ جو کچھ فطرت میں موجود ہے اسی کو جھٹلایا جاتا ہے۔اس کے برعکس کفر و شرک کے تمام عقلی اور نقلی دلائل ایسے ہیں جو کسی بھی سلیم الفطرت انسان کو مطمئن نہیں کر سکتے کیونکہ وہ خلافِ فطرت ہے۔[2]
Flag Counter