Maktaba Wahhabi

66 - 315
افسوس!لوگوں کی اکثریت فارغ البالی اور تن آسانیوں میں یہ معرفت کھو بیٹھتی ہے۔کبھی دولت کا نشہ قارون کو توحید الٰہی سے غافل کر کے اپنے فہم و فراست کا اسیر بنا دیتا ہے تو کبھی اقتدار کی چمک دمک فرعون کی آنکھوں پر اس طرح چھا جاتی ہے کہ وہ خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے۔لیکن زمین میں دھنس جانے والے قارون اور سمندر میں ڈوبنے والے فرعون کو بہت جلد اندازہ ہو جاتا ہے کہ وقت کے نبی سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جس ہستی کا تعارف کرایا تھا وہی تو اللہ ہے۔فطرت کے اندر یہ روشن چراغ کسی وجہ سے بجھ جائے تو الگ بات ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ انسان کی فطرت میں تنہا ایک خالق و مالک کی پہچان موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا ﴾ ’’اور جب سمندر میں تمھیں کوئی تکلیف پہنچے تو وہ جنھیں تم اس (اللہ) کے سوا پکارتے ہو، گم ہو جاتے ہیں، پھر جب وہ (اللہ) تمھیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے تو تم (اس فطری عقیدۂ توحید سے) منہ موڑ لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔‘‘[1] مشرق و مغرب کے دور دراز علاقوں کے رہنے والے لوگ جو علم و نظر سے بے خبر ہیں، وہ بھی بغیر علم اور دلیل کے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس کائنات اور اس میں موجود مخلوقات کا کوئی پیدا کرنے والا ضرور ہے۔ جدید چین کے بانی ماؤزے تَنگ (Mao Zedong) کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اس کا آخری وقت قریب آیا تو وہ کہنے لگا: مسلمان کہتے ہیں کہ اس کائنات کا تنہا مالک و خالق اللہ ہے، ان کی یہ بات قرینِ صحت معلوم ہوتی ہے۔اس کو نہ مانیں تو بھی اس کائنات کے پس پردہ کوئی ایسی کارفرما ہستی ضرور موجود ہے جو اس کارخانۂ زندگی کو کنٹرول کر رہی ہے، اگرچہ وہ دکھائی نہیں دیتی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی معرفت فطرت میں شامل ہے اور ہر ذی روح ہستی خارجی دلائل کے بغیر فطری طور پر یہ سمجھ رکھتی ہے کہ اس کا ایک خالق ہے تو انبیاء و رسل کو بھیجنے کا کیا مقصد ہے؟ اس کا
Flag Counter