Maktaba Wahhabi

65 - 315
﴿ فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ’’چنانچہ (اے نبی!) آپ یکسو ہو کر اپنا رخ دین کے لیے سیدھا رکھیں، اللہ کی فطرت (اختیار کریں) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیاہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ممکن نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘[1] ارشاد نبوی ہے: ((مَا مِنْ مَّوْلُودٍ إِلَّا یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہِ وَیُنَصِّرَانِہِ وَیُمَجِّسَانِہِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَھِیمَۃُ بَھِیمَۃً جَمْعَاءَ ھَلْ تُحِسُّونَ فِیھَا مِنْ جَدْعَاءَ)) ’’ہر بچہ فطرت اسلام، یعنی توحید الٰہی کی معرفت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘[2] انسان جب ہر طرف سے مایوس ہو جائے تو وہ غیر شعوری طور پر اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے، بغیر کسی ظاہری دلیل کے اس کے ہاتھ خالقِ اکبر کی طرف اُٹھ جاتے ہیں اور بغیر کسی شعوری کوشش کے وہ ہمہ تن قادر مطلق احکم الحاکمین کی ذاتِ بابرکات کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ بچہ عقل و شعور اور علم سے آشنا نہیں ہوتا لیکن جب روتا ہے تو اپنا منہ آسمان کی طرف کرتا ہے کیونکہ اس کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ اس کا رب آسمانوں (کے اوپر بلندیوں) میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تنِ تنہا خالق و مالک ہونے کا احساس تو جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔پانی نایاب، گھاس کی کمی اور ہلاکت کا ڈر ہو تو جانور بھی آسمان کی طرف منہ کر کے صدا لگاتے ہیں۔ قرآن مجید میں بارش کے لیے چیونٹی کی التجا کا واقعہ اس کی روشن دلیل ہے۔اللہ تعالیٰ نے وقت کے نبی اور دنیا بھر کے بادشاہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کو یہ شان عطا فرمائی تھی کہ ہواؤں اور فضاؤں کو بھی ان کے تابع کر دیا تھا، ان کی موجودگی میں چیونٹی کا اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ کائنات کی ادنیٰ ترین مخلوق بھی اپنے خالق و مالک کی معرفت رکھتی ہے۔
Flag Counter