Maktaba Wahhabi

260 - 315
رسولوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے: یہ نحوست تمھاری وجہ سے آئی ہے) تو ان رسولوں نے کہا: تمھاری نحوست تو تمھارے ساتھ ہی ہے، کیا اگر تمھیں نصیحت کی جائے(تو یہ نحوست ہے؟ ہرگز نہیں!) بلکہ تم لوگ ہی حد سے بڑھنے والے ہو۔‘‘[1] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ھَامَۃَ وَلَا صَفَرَ)) ’’بیماری کا ازخود ایک سے دوسرے کو لگ جانا اس میں کوئی حقیقت نہیں، بدفالی اور بدشگونی کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔(اسی طرح) نہ اُلو کا بولنا (کوئی برا اثر رکھتا) ہے اور نہ ماہ صفر ہی (منحوس) ہے۔‘‘[2] صحیح مسلم کی روایت میں یہ لفظ بھی ہیں: ((وَلَا نَوْءَ)) ’’اور ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ بھی بے اصل ہے۔‘‘[3] سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَۃَ وَ یُعْجِبُنِی الْفَأْلُ)) ’’بیماری کے خودبخود ایک سے دوسرے کو لگ جانے اور بدشگونی لینے کی کوئی حقیقت نہیں، البتہ مجھے فال پسند ہے۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: فال کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((كَلِمَۃٌ طَیِّبَۃٌ)) ’’اچھی بات (کا سننا اور اس سے خیر کی امید وابستہ کر لینا)۔‘‘ [4] سیدنا عروہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بدفالی اور بدشگونی کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے بہتر نیک شگونی ہے اور یہ بدفالی اور بدشگونی کسی مسلمان کو اس کے مقصود سے روک نہ دے، چنانچہ جب کوئی شخص ناپسندیدہ چیز دیکھے تو اس سے بدشگونی لیتے ہوئے اپنا کام نہ چھوڑے بلکہ یہ دعا کرے:
Flag Counter