Maktaba Wahhabi

236 - 315
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَجَرٰی فِی تِلْكَ السَّاعَۃِ بِمَا ھُوَ كَائِنٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ)) ’’ قیامت کے دن تک جو کچھ ہونے والا تھا، اسے لکھنے کے لیے قلم اسی وقت چل پڑا۔‘‘[1] نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان بھی ثابت ہے کہ شکم مادر میں جنین پر جب چار ماہ گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کارزق، اجل، عمل اور اس کابد بخت یا سعادت مندہونا لکھ دیتا ہے، پھر اس میں روح پھونکتا ہے۔[2] رزق بھی اپنے اسباب کے ساتھ مقدر میں لکھ دیا گیا ہے، اس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔اس بات کا تعلق بھی اسباب ہی کے ساتھ ہے کہ انسان طلب رزق کے لیے کوئی کام کرے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کی تقدیر میں لکھا ہو کہ یہ بندہ رزق کا فلاں فلاں ذریعہ اختیار کرے گا اور اسے رزق ملے گا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ﴾ ’’وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو نرم کیا، پس اس کی راہوں میں چلو پھرو اور اللہ کا (دیا ہوا) رزق کھاؤ اور تم کو (قبروں سے) نکل کر اسی کے پاس جانا ہے۔‘‘[3] اسباب رزق میں سے ایک سبب صلہ رحمی بھی ہے، یعنی والدین کے ساتھ نیکی اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یُبْسَطَ لَہُ فِی رِزْقِہِ وَیُنْسَأَ لَہُ فِی أَثَرِہِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ)) ’’جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی اوراس کی عمر میں درازی ہوتو اسے صلہ رحمی سے کام لینا چاہیے۔‘‘[4] اسی طرح اسباب رزق میں سے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter