Maktaba Wahhabi

232 - 315
﴿وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ ﴾ ’’اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے (بنائے ہوئے) شرکاء نے ان کی اولاد کا قتل پسندیدہ بنا رکھا ہے تاکہ وہ ان لوگوں کو ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے لیے ان کا دین مشکوک بنا دیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا آپ انھیں اور جو جھوٹ وہ گھڑتے ہیں (اُسے) چھوڑ دیں۔‘‘[1] اور فرمایا: ﴿وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہتا تو ان (انبیاء علیہم السلام) کے بعد آنے والے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انھوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے بعض تو ایمان لے آئے اور بعض کافر ہی رہے اوراگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ کرتے لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘[2] انسان کو چاہیے کہ وہ ان امور کے بارے میں جو تشویش دلاتے ہوں اور ان سے تقدیر کے سلسلے میں شریعت کی خلاف ورزی کا احتمال ہو، ان کے متعلق نہ خود اپنے دل میں کچھ سوچے، نہ اس سلسلے میں کسی اور سے بحث کرے کیونکہ تقدیر اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے جو اس نے مطلق طور پر کسی کو مطلق نہیں بتایا اور جب کلی طور پر اللہ نے ہمیں اپنا یہ راز بتایا ہی نہیں ہے تو پھر ہم اس مسئلہ پر اپنی ناقص عقل کو کبھی مطمئن نہیں کر سکتے، لمبی لمبی بحثیں کر لینے کے بعد بھی ذہن میں کوئی نہ کوئی سوال ابھر آتا ہے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس نکتے کو سمجھ لیا تھا کہ تقدیر پر ایمان دراصل ہماری آزمائش ہے کہ جو کچھ ہمیں بتا دیا گیا ہے کیا ہم اس کو من و عن مان لیتے ہیں یا عقلِ ناقص کو مطمئن رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تقدیر کے متعلق کسی بھی آسمانی خبر یا شرعی حکم کو سن کر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فوراً اس کی تصدیق کرتے اور دل و جان سے اسے مان لیتے تھے اور اس سلسلے میں نہ وہ کسی فضول بحث میں پڑتے تھے، نہ نئے نئے سوالات اٹھاتے تھے۔حالانکہ وہ حقائق معلوم کرنے
Flag Counter