Maktaba Wahhabi

229 - 315
ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی مملکت میں کوئی ایسا کام نہیں ہوسکتا جو وہ نہ چاہے لیکن جو فعل بندے کے اختیار اور اس کی جسمانی صلاحیت سے واقع ہو اس کا وہ جواب دہ ہے، لہٰذا جن احکام اور ممنوعات کا اسے مکلف قراردیا گیا ہے وہ یہ کہتے ہوئے ان کی مخالفت نہیں کر سکتا کہ میری تقدیر میں یہی لکھا ہوا تھا کیونکہ احکام الٰہی کی مخالفت تو وہ اس وقت کرتا ہے جب اسے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں کیا لکھا ہے اور احکام الٰہی کی مخالفت کے سلسلے میں اس کا یہ اختیاری اقدام ہی اس کی دنیوی یا اخروی سزا کا سبب بنتا ہے۔اسی لیے اگر کوئی جابر اور ظالم فرمانروا اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی مخالفت پر مجبور کرے تو اس پر حکمِ مخالفت ثابت نہیں ہوتا اور عذر کے ثابت ہونے کی وجہ سے اسے سزا بھی نہیں دی جاتی۔ انسان کو معلوم ہے کہ آگ سے بھاگ کر ایسی جگہ چلے جانا جہاں وہ اس سے محفوظ رہے اس کے اختیار سے ہے، اسی طرح آرام دہ، کشادہ اور پاکیزہ مکان میں سکونت اختیار کرنابھی اس کے اپنے اختیار سے ہے، حالانکہ آگ سے بھاگنا اوراچھے مکان میں سکونت اختیار کرنا، دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے واقع ہوتے ہیں جبکہ اس کا اپنی جگہ پر کھڑے رہنا تاکہ آگ اسے اپنی لپیٹ میں لے لے اور اچھے مکان میں رہائش اختیار کرنے میں دیر کردینا، اور ایسے موقع کو ضائع کردینا اس کی طرف سے کوتاہی شمار ہوگا جس پر وہ ملامت کا مستحق ہوگا۔تو ایسی صورت میں اسے یہ بات کیوں معلوم نہیں ہوئی کہ آتش جہنم سے نجات دینے اور دخول جنت کو واجب قراردینے والے اسباب کو ترک کردینا بھی اس کی طرف سے ایسی ہی کوتاہی ہے جو مستحق ملامت ہے؟ باقی رہی یہ مثال کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کی تقدیر میں یہ لکھ دیا ہوکہ وہ مسجد بنائے گا تو وہ شخص یہ مسجد تو ضرور بنائے گا لیکن اس کے بنانے کی کیفیت کے بارے میں اختیار اُسی کی عقل کو دے دیا گیا ہے تو یہ مثال صحیح نہیں کیونکہ اس مثال سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد بنانے کی کیفیت کا مستقل اختیار عقل کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے جبکہ مسجد بنانے کی اصل سوچ کا تعلق تقدیر سے ہے اور عقل کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسجد بنانے کی اصل سوچ میں بھی بندے
Flag Counter